• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر شادی شدہ کا مختلف کاموں پر بیوی کی طلاق کو معلق کرنا

استفتاء

ہمارے استاد نے حفظ کے بڑے طلباء کو نسوارکھانے اور گانے سننے سے باز رکھنے کے لئے کلما کی طلاق کے الفاظ کہلوائے اور ہم نے پھر وہی کام کیا۔ اب شریعت میں اس کا کیا حل ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

1) الفاظ کیا تھے؟ نیز الفاظ بولتے وقت طلباء کی عمریں کیا تھیں؟ بالغ تھے یا نا بالغ؟

جواب وضاحت:

1) الفاظ یہ تھے ” ہم قسم کھاتے ہیں کہ اگر آج کے بعد ہم نے جان بوجھ کر سگریٹ پی یا چرس اور شراب پی یا گانے سنے یا فلمیں دیکھیں تو ہم پر ہماری بیوی حرام ہو گی” اور طلباء کی عمریں تقریبا 12 سے 15سال تھیں اور طلباء غیر شادی شدہ تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صور ت میں تعلیق درست نہیں ہوئی لہذا مذکورہ کاموں میں سے کوئی کام کرنے کی صورت میں قسم کھانے والوں میں سے کسی کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہو گی۔

توجیہ: تعلیق ِطلاق کےدرست ہونے کے لئے  نکاح یا اضافت الی النکاح ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں ان دونوں میں سے کوئی چیز موجود نہیں۔ نیز تعلیق کے لئے بلوغت بھی شرط ہے لہذا طلباء میں اگر کوئی بچہ نابالغ تھا تو اس کی تعلیق درست نہ ہونے کی ایک اور وجہ اس کا نابالغ ہونا بھی ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق (طبع: مکتبہ رشیدیہ،  جلد نمبر5 صفحہ نمبر 487 ) میں ہے:"( اليمين ) لغة القوة وشرعا ( عبارة عن عقد قوي به عزم الحالف على الفعل أو الترك ) فدخل التعليق فإنه يمين شرعا ۔۔۔  وشرطها الإسلام والتكليف وإمكان البرقال ابن عابدين: ( قوله وشرطها الإسلام والتكليف ) قال في النهر : وشرطها كون الحالف مكلفا مسلما ، وفسر في الحواشي السعدية التكليف بالإسلام والعقل والبلوغ ، وعزاه إلى البدائع وما قلناه أولى اه”

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق (طبع: مکتبہ رشیدیہ،  جلد نمبر 4صفحہ نمبر582) میں ہے:"( شرطه الملك ) حقيقة كقوله لقنه : إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما ، ولو حكما ( كقوله لمنكوحته ) أو معتدته ( إن ذهبت فأنت طالق ) ( ، أو الإضافة إليه ) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا ، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك ( كإن ) نكحت امرأة أو إن ( نكحتك فأنت طالق )”

الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان واذا وغیرھما (طبع: مکتبہ رشیدیہ،  جلد نمبر2صفحہ نمبر 317) میں ہے:"ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved