• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غلطی کی وجہ سے مریض کی موت پر معالج پر کیا تاوان ہے؟

استفتاء

بندہ دل کا ڈاکٹر ہے، انجیوگرافی (Angiography) اور سٹنٹ (Stunt) ڈالنا اپنے سینئر (Senior) ڈاکٹروں سے سیکھ رہا ہے۔

ایک مریض کی انجیوگرافی میں انجیوپلاسٹی (Angioplasti)  کے دوران ایک پیچیدگی ہوئی جس  کے نتیجے میں مریض کے دل کی نالی پھٹی اور اس کی حالت خراب ہوگئی، سی پی آر (cpr) کی ضروت پڑی اور مریض کو آئی سی یو میں داخل کر دیا گیا  اور تقریباً چار دن بعد اس کی وفات ہوگئی۔

واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ میرے ساتھ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر کے والد صاحب کی انجیوگرافی کی ضرورت ہوئی، انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے دل کے شعبے میں انجیوگرافی کرنے والے سب سے ماہر ڈاکٹر کا  مشورہ  دیا اور ان دوست کی خاطر ان ماہر ڈاکٹر صاحب سے سفارش کی کہ اس مریض کی انجیوگرافی خود کریں ، انہوں نےمنظور کرلیا اور میں نے ان کے ساتھ بطور مساعد کام کرنے کی حامی بھر لی۔

مقررہ وقت پر جب میں کیتھ لیب (Cath lab) میں پہنچا تو خلافِ توقع وہ ڈاکٹر صاحب کنٹرول روم (Controlroom) میں تشریف فرما تھے اور مجھے ان  کی نگرانی میں  انجیو گرافی کرنا پڑی یہ طریقہ اگرچہ ٹریننگ کے دوران معمول کا ہوتا ہے لیکن مجھے توقع  نہ تھی مجھے ہی  یہ انجیوگرافی کرنا پڑے گی۔

میں نے انجیوگرافی شروع کردی اور ڈاکٹرصاحب مجھے کنٹرول روم سے ہی سپیکر کے ذریعے ہدایات دیتے رہے، اللہ کے فضل سے انجیوگرافی بہت اچھی ہوگئی اور ادھیڑ عمر آدمی کے حساب سے اچھے نتائج نکلے، بند نالی کئی جگہ سے کھل گئی، اتنی بڑی عمر کے آدمی کے لیےاتنا بھی  کافی تھا ، البتہ نالی ابھی بھی ایک  جگہ سے بند تھی  اور وہاں سے سخت ہوچکی تھی، ڈاکٹر نے وہاں سے بھی کھولنے کا کہا، میرے دل میں خیال آیا کہ یہ سخت ہے اور اسے ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے ، ضرورت والا کام ہوگیا ہے اور  مریض کی عمر بھی زیادہ ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر مجھے اس نالی کو کھولنے کے لیے اس میں غبارہ ڈالنا پڑا، ڈاکٹر صاحب نے جس غبارے کا استعمال کرنا طے کیا تھا وہ نالی کے لیے موٹا تھا ، دل میں تشویش پیدا ہوئی کہ  غبارہ بڑا ہے لیکن خیال آیا کہ کبھی انجیو گرافی میں نیا غبارہ کھولنے کی بجائے بڑے غبارے کو ہلکے پریشر سے استعمال کرلیتے ہیں،میں نے بھی یہی سوچا کہ شاید ہلکے پریشر (pressure) پر استعمال کرنا ہوگا اور جو ڈاکٹر صاحب مجھے ہدایت دے رہے تھے وہ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں اس لیے میں نے تعمیل ارشاد کیا ، جب پریشر دینے کی باری آئی تو ڈاکٹر صاحب پریشر بڑھانے کا کہتے رہے پریشر کا تیز ہونا تھا کہ جو نالی  پہلے سے سخت تھی وہ پھٹ گئی، مریض کے دل کی دھڑکن رک گئی  یعنی اسے (Cardiac arrest) ہوگیا ، سی پی آر (cpr) کیا اور اسے آئی سی یو میں داخل کردیا ، چار دن بعد اس کی وفات ہوگئی۔

واضح رہے کہ سینئیر ڈاکٹر صاحب کنٹرول روم سے سپیکر کے ذریعے مجھے ہدایت دے رہے تھے، میں نے کانوں میں (Head phones) ڈالے ہوئے تھے اور میں ان کی ہدایات کے مطابق نرس کو کام سنا رہا تھا، غبارہ تو میں نے خود ڈالا لیکن پریشر نرس نے دیا اور ہدایات ڈاکٹر صاحب کی تھیں جو میری زبانی نرس تک پہنچ رہی تھیں اور نرس اس کے مطابق عمل کررہا تھا۔

یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میں انجیوگرافی سیکھنے کے مراحل میں ہوں یعنی ابھی  تک میں کسی سینئیر ڈاکٹر کے اشراف کےبغیر   خود سے انجیوگرافی نہیں کرسکتا اور اگر میری رائے کسی اور سینئیر ڈاکٹر صاحب کی رائے کے مخالف ہو تو میں صرف اظہارِ رائے کرسکتا ہوں آخری فیصلہ انہیں کا ہوتا ہے اور مجھے ویسے ہی کرنا ہوتا ہے جیسا وہ کہتے ہیں، اس موقع پر بھی میں نے اپنی تشویش ظاہر کی تھی لیکن اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا۔

سوال یہ ہے کہ بڑے غبارے کا استعمال اور پھر زیادہ پریشر دینا طبی  خطاشمار کی جاتی ہے اس کے نتیجے میں نالی پھٹی اور مریض کی موت واقع ہوئی۔

  1. اس طبی خطا کے نتیجے میں واقع ہونے والی موت کی میرے اوپر بطور زیرِ تربیت ڈاکٹر کیا ذمہ داری واقع ہوتی ہے؟
  2. 2.کیا اس کا کوئی ضمان یا دیت میرے ذمے آتی ہے؟
  3. اگر آتی ہے تو اس کی کیا مقدار ہوگی اور کیا وہ ورثاء ہی میں تقسیم کی جائے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں واقع ہونے والی موت کی ذمہ داری  آپ حضرات(سینیئر، جونیئیر، نرس) پر آنے کا دارومدار مندرجہ ذیل دو باتوں پر ہے:

  1. یا تو آپ حضرات نے یہ آپریشن  مریض یا اس کے  ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر  کیا ہو۔
  2.  یا آپ حضرات نے یہ آپریشن طبی اصول وضوابط اور مذکورہ آپریشن کے معروف طریقوں کے مطابق نہ کیا ہو۔

مذکورہ صورت میں خود مریض یا اس کے ولی کی اجازت تو بظاہر موجود تھی، باقی یہ بات کہ یہ آپریشن طبی اصول وضوابط اور مذکورہ آپریشن کے معروف طریقوں کے مطابق تھا یا نہیں؟ اس کو ہم طے نہیں کرسکتے۔

اسے طے کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی پوری صورتحال متعلقہ شعبے کے ماہر اور دیندار ڈاکٹروں کے ایک بورڈ (جس میں کم از کم تین ڈاکٹر ہوں ان) کے سامنے رکھیں اگر اس پورے بورڈ کی یا ان میں سے اکثر کی رائے میں آپ حضرات کی غلطی ثابت ہو  تو آپ تینوں حضرات اس موت کے ذمہ دار ہوں گے ورنہ نہیں۔

2-غلطی ثابت ہونے کی صورت میں آپ تینوں  میں سے ہر ایک دو مہینے مسلسل روزے رکھے گا  اور آپ تینوں پر دیت آئے گی جو آپ تینوں پر برابر  تقسیم ہوگی، کیونکہ آپ تینوں ایک دوسرے کے معاون تھے۔

3-دیت کی مقدار دو ہزار چھ سو پچیس (2625) تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہوگی اور یہ دیت فوت ہونے والے شخص کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر(نہ کہ برابر) تقسیم ہوگی۔ تاہم کوئی ایک وارث اپنا حصہ یا کل ورثاء اپنا حصہ معاف کرنا چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ عاقل بالغ ہوں اور اپنی دلی رضامندی سے (نہ کہ کسی دباؤ سے) معاف کریں۔

نوٹ:مذکورہ صورت میں آپ تینوں پر کل دیت آئے گی یا نصف؟ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ اگر اس  پورے آپریشن میں طبی لحاظ سے مذکورہ نالی کے پھٹنے کے علاوہ  بھی کوئی ایسا سبب تھا جو موت کا سبب  بن سکتا تھا تو نصف دیت آئے گی ورنہ کل دیت آئے گی۔

مجمع الضمانات(87) میں ہے:

قال فى الفصولين: هذا الفعل. أما لو فعلوا بخلاف ذلك ضمنوا فإن قطع الختّان الجلدة والحشفة إن لم يمت من ذلك كان عليه كمال الدية وإن مات من ذلك كان عليه نصف الدية وإنما وجب كمال الدية إذا برئ والنصف إذا مات لانه إذا مات فالتلف عليه حصل بفعلين  قطع الجلدة وقطع الحشفة واحدهما مأذون فيه والآخر لا فنصف الضمان أما إذا برئ فقطع الجلدة مأذون فيه فجعل كأنه لم يكن وقطع الحشفة غير مأذون فيه فوجب ضمان الحشفة كاملا وهو الدية كذا فى الفتاوى الصغرى.

مجمع الضمانات(88) میں ہے:

وسئل الحلوانى عن صبية سقطت من السطح فانتفخ رأسها فقال كثير من الجرّاحين: إن شققتم رأسها تموت وقال واحد منهم: إن لم تشقّوه اليوم تموت وأنا أشقه وأبرئها فشقه ثم ماتت بعد يوم أو يومين هل يضمن فتأمل مليّا ثم قال: لايضمن إن كان الشق بإذن وكان معتادا ولم يكن فاحشا خارج الرسم فقيل له: إنما أذنوا بناء على أنه علاج مثلها فقال: ذلك لايوقف عليه فاعتبر نفس الاذن قيل له: فلو كان قال هذا الجرّاح: إن ماتت من هذا الجرح فانا ضامن هل يضمن؟ قال لا.

المغنی لابن قدامہ میں ہے:

مسألة؛ قال: (وَلَا ضَمَانَ عَلَى حَجَّامٍ، ولَا خَتَّانٍ، ولَا مُتَطَبِّبٍ، إذَا عُرِفَ مِنْهُمْ حِذْقُ الصَّنْعةِ، وَلَمْ تَجْنِ أيْدِيهِمْ)

وجملتُه أنَّ هؤلاءِ إذا فَعَلُوا ما أُمِرُوا به، لم يَضْمَنُوا بِشَرْطَيْنِ؛ أحدهما، أن يكونوا ذَوِى حِذْقٍ في صِنَاعَتِهِم، ولهم بها بَصَارَةٌ ومَعْرِفةٌ؛ لأنَّه إذا لم يكُنْ كذلك لم يَحِلَّ له مُبَاشَرَةُ القَطْعِ، وإذا قَطَعَ مع هذا كان فِعْلًا مُحَرَّمًا، فيَضْمَنُ سِرَايَتَه، كالقَطْعِ ابْتِداءً. الثاني، أن لا تَجْنِىَ أيْدِيهُم، فيَتَجَاوَزُوا ما يَنْبَغِى أن يُقْطَعَ. فإذا وُجِدَ هذان الشَّرْطانِ، لم يَضْمَنُوا؛ لأنَّهم قَطَعُوا قَطْعًا مَأْذُونًا فيه، فلم يَضْمَنُوا سِرَايَتَه، كقَطْعِ الإِمَامِ يَدَ السَّارِقِ، أو فَعَلَ فِعْلًا مُباحًا مَأْذُونًا في فِعْلِه، أشْبَهَ ما ذَكَرْنا. فأمَّا إن كان حاذِقًا وَجَنَتْ يَدُه، مثل أن تَجَاوَزَ قَطْعَ الخِتَانِ إلى الحَشَفَةِ، أو إلى بعضِها، أو قَطَعَ في غيرِ مَحلِّ القَطْعِ، أو يَقْطَعُ [الطَّبِيبُ سَلْعَةً] من إنْسانٍ، فيَتَجاوَزُها، أو يَقْطَعُ بآلةٍ كَالَّةٍ يَكْثُرُ أَلَمُها، أو في وَقْتٍ لا يَصْلُحُ القَطْعُ فيه، وأشْباه هذا، ‌ضَمِنَ فيه كلِّه؛ لأنَّه إتْلافٌ لا يَخْتَلِفُ ضَمَانُه بالعَمْدِ والخَطَإِ، فأشْبَه إتْلافَ المالِ، ولأنَّ هذا فِعْلٌ مُحَرَّمٌ، فيَضْمَنُ سِرَايَتَه، كالقَطْعِ ابْتِداءً. وكذلك الحُكْمُ في النَّزَّاعِ  والقاطِعِ في القِصَاصِ، وقاطِع يَدِ السّارِقِ. وهذا مذهبُ الشافِعِيِّ، وأصْحابِ الرَّأْى، ولا نَعْلَمُ فيه خِلَافًا.

ردالمحتار(10/271) میں ہے:

ذكر الزيلعي وغيره ما حاصله أنه لو استأجره ليشرع له جناحا فى فناء داره وقال له إنه ملكى أو لي فيه حق الإشراع من القديم ولم يعلم الأجير فظهر بخلافه فسقط على انسان قبل الفراغ أو بعده، فالضمان على الاجير، ويرجع على الآمر قياسا واستحسانا.

التجرید للقدوری(11/5759) میں ہے:

قالوا لو اشترك ألف ‌في ‌قتل ‌رجل وجب على كل واحد منهم أقل من نصف عشر الدية وتحملت ذلك عاقلته

المبسوط للسرخسی(26/93)میں ہے:

فَإِذَا اشْتَرَكَ الرَّجُلَانِ ‌فِي ‌قَتْلِ ‌رَجُلٍ أَحَدُهُمَا بِعَصًا، وَالْآخَرُ بِحَدِيدَةٍ فَلَا قِصَاصَ عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمَا هَكَذَا نُقِلَ عَنْ إبْرَاهِيمَ؛ وَهَذَا لِأَنَّ الْقَتْلَ بِالْعَصَا لَا يُصْلَحُ أَنْ يَكُونَ مُوجِبًا لِلْقِصَاصِ؛ لِأَنَّ الْقَصْدَ بِهِ التَّأْدِيبُ، وَالْآلَةُ آلَةُ التَّأْدِيبِ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ فِعْلِ الْخَاطِئِ، وَالْخَاطِئُ، وَالْعَامِدُ إذَا اشْتَرَكَا فِي الْقَتْلِ لَمْ يَجِبْ الْقِصَاصُ عَلَيْهِمَا؛ لِأَنَّهُ اخْتَلَطَ الْمُوجِبُ بِغَيْرِ الْمُوجِبِ فِي الْمَحَلِّ فَقَدْ انْزَهَقَتْ الرُّوحُ عَقِيبَ فِعْلَيْنِ أَحَدُهُمَا لَيْسَ بِسَبَبٍ لِوُجُوبِ الْعُقُوبَةِ، وَلَا يَدْرِي أَنَّهُ بِأَيِّ الْفِعْلَيْنِ أُزْهِقَ الرُّوحُ فَيُمْكِنُ الشُّبْهَةُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَالْقِصَاصُ عُقُوبَةٌ تَنْدَرِئُ بِالشُّبُهَاتِ، وَبَعْدَ سُقُوطِ الْقِصَاصِ يَجِبُ الْمَالُ فَيَتَوَزَّعُ عَلَيْهِمَا نِصْفَانِ، وَلَيْسَ أَحَدُهُمَا بِإِضَافَةِ الْقَتْلِ إلَيْهِ بِأَوْلَى مِنْ الْآخَرِ.

وَلَا يُقَالُ: يَنْبَغِي أَنْ يُضَافَ الْقَتْلُ إلَى فِعْلِ مَنْ اسْتَعْمَلَ السِّلَاحَ فِيهِ؛ لِأَنَّ السِّلَاحَ آلَةٌ لِلْقَتْلِ دُونَ الْعَصَا؛ وَهَذَا لِأَنَّ الْإِنْسَانَ قَدْ يَسْلَمُ مِنْ الْجُرْحِ بِالْحَدِيدِ، وَيَتْلَفُ مِنْ الضَّرْبِ بِالْعَصَا فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَا لَوْ جَرَحَهُ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا جِرَاحَةً وَاحِدَةً، وَالْآخَرُ عَشَرَةَ جِرَاحَاتٍ فَإِنَّهُ يُجْعَلُ الْقَتْلُ مُضَافًا إلَيْهِمَا عَلَى السَّوَاءِ لِهَذَا الْمَعْنَى ثُمَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِيمَا لَزِمَهُ مِنْ نِصْفِ الدِّيَةِ يُجْعَلُ كَالْمُنْفَرِدِ بِهِ فَنِصْفُ الدِّيَةِ عَلَى صَاحِبِ الْحَدِيدَةِ فِي مَالِهِ، وَنِصْفُهَا عَلَى صَاحِبِ الْعَصَا عَلَى عَاقِلَتِهِ، وَكَذَلِكَ لَوْ قَتَلَاهُ بِسِلَاحٍ، وَأَحَدُهُمَا صَبِيٌّ أَوْ مَعْتُوهٌ فَلَا قِصَاصَ عَلَيْهِمَا عِنْدَنَا، وَهُوَ أَحَدُ قَوْلَيْ الشَّافِعِيِّ، وَفِي قَوْلِهِ الْآخَرِ يَجِبُ الْقَوَدُ قِيَاسًا عَلَى الْعَاقِلِ الْبَالِغِ بِنَاءً عَلَى قَوْلَيْنِ فِي عَمْدِ الصَّبِيِّ عَلَى مَا بَيَّنَّا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved