• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گھر میں کسی کےآنے پر طلاق کو معلق کرنے کی ایک صورت

استفتاء

مفتی صاحب میری شادی کو 14 سال ہو گئے ہیں اور میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ہم میاں بیوی کےدرمیان گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے میں نے اسے کہا کہ ’’وہ آدمی میری غیر موجودگی میں ایک بار گھر آیا تو ایک طلاق،  دوسری بار گھر آیا تو دوسری طلاق اور تیسری بار گھر آیا تو تیسری طلاق ‘‘ مفتی صاحب میری بیوی اور میرے درمیان اسی  طرح تلخیاں چلتی رہیں اور ایک بار میری بیوی نے اسے گھر بلایا بہانے سے وہ گھر کے دروازے سے ایک قدم اندر رکھتے ہی واپس ہو گیا گھر میں مکمل اندر نہیں آیا، اور اس وقت میری بیوی بھی گھر پر نہیں تھی صرف بچے تھے، مجھے اختلاف تھا کہ وہ میری غیر موجودگی میں میری فیملی کے پاس نہ آئے جس وجہ سے میں نے یہ طلاق معلق کی تھی، اس کے آنے کے بعد میں نے رجوع بھی کر لیا تھا،  اس کے بعد میں نے اس آدمی کو بولا کہ آپ اب ہمارے گھر نہیں آنا کیونکہ یہ مسئلہ ہے، ہماری طلاق ہو جائے گی، اس کے بعد میری بیوی دو دفعہ اس آدمی کے پاس گئی کہ آپ ہمارے گھر آئیں میں بہت پریشان ہوں یہ رشتہ ختم کرنا ہے لیکن وہ آدمی نہیں آیا، اس نے کہا کہ میں نہیں آتا، بھائی نے مجھے بتایا ہے، میں نہیں آؤں گا۔ اس کے بعد میری بیوی کا پولیس میں جاننے والا تھا اس نے اس سے کہا اور وہ اس آدمی کو پکڑنے گئے تو وہ نہیں آ رہا تھا، پھر پولیس کا کارڈ اسے دکھایا اور ساتھ چلنے کا بولا،  اسےاپنی گاڑی پر  ایک بار رات کو زبردستی میرے  گھر کے اندر لے کر آئے اور وہ لڑکا خود چل کر گھر میں داخل ہوا تھا، پھر آنکھوں پر پٹی لگا کر اسے اپنے ساتھ واپس تھانے لے گئے ، رات تھانے میں گزاری،  صبح پھر اسےاپنی گاڑی میں ڈال کر میرے گھر لے  آئے اور وہ لڑکا خود چل کر گھر میں داخل ہوا تھا ، اور پھر  اسے جہاں سے اٹھایا تھا واپس وہیں چھوڑ دیا۔ لڑکا خود نہیں آیا تھا اسے  زبردستی لایا گیاتھا،  وہ  کہتا ہے اگر نہ جاتا تو پولیس والے  میرے لیے اور میری فیملی کیلیے مسائل پیدا کرتے۔اس طرح وہ لڑکا تین مرتبہ ہمارے گھر آیا ایک مرتبہ خود آیا لیکن دروازے سے پورا داخل نہیں  ہوا ایک قدم رکھتے ہی واپس چلا گیا اور اس وقت میری بیوی بھی گھر پر نہیں تھی جس کی وجہ سے مجھے اعتراض تھا، اس کے آٹھ دس دن بعد دو مرتبہ  اسے پولیس زبردستی لے کر آئی ہے وہ خود نہیں آیا، اس واقعہ کے دو تین دن بعد میں نے رجوع کر لیا تھا اور اس وقت سے اب تک ہم میاں بیوی کی طرح  ایک گھر میں رہ رہے ہیں اور  آپس میں  معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں، ہمارے  چھوٹے بچے ہیں بہت پریشانی ہے،  براہ  مہربانی راہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ نیز یہ میرا ذاتی گھر نہیں ہے کرائے کا گھر ہے، کیا اس سے مسئلے پر کوئی فرق پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعتاً اس آدمی نے پہلی مرتبہ گھر میں صرف ایک قدم رکھا تھا تو مذکورہ صورت میں دو رجعی  طلاقیں  واقع ہو گئی ہیں پھر چونکہ شوہر نے عدت کے اندر رجوع کر لیا   لہذا نکاح باقی ہے۔ نیز کرائے کا گھر ہونے کی وجہ سے مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑےگا، کیونکہ قسم کا مدار عرف پر ہوتا ہے اور عرف میں گھر سے رہائشی مکان مراد لیا جاتا ہے، خواہ وہ رہائشی مکان ذاتی ہو یا کرائے کا ہو۔

نوٹ: آئندہ کےلیے شوہر کے  پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے اور اگر مذکورہ شخص دوبارہ گھر میں آیا تو تیسری طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب  شوہر نے  یہ الفاظ کہے کہ ’’وہ آدمی میری غیر موجودگی میں ایک بار گھر آیا تو ایک طلاق،  دوسری بار گھر آیا تو دوسری طلاق اور تیسری بار گھر آیا تو تیسری طلاق ‘‘ تو مذکورہ آدمی کے ہر مرتبہ آنے پر ایک ایک طلاق معلق ہو گئی،  پھر جب مذکورہ شخص گھر آیا اور اس نے گھر میں صرف ایک قدم رکھا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ صرف ایک قدم رکھنے سے آنے کا تحقق نہیں ہوا اور شرط نہیں پائی گئی، پھر اس کے چند دن بعد جب دوبارہ مذکورہ آدمی کو زبردستی رات کو گھر لایا گیا تو شرط پائے جانے کی وجہ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر اگلی صبح جب دوبارہ مذکورہ آدمی کو زبردستی گھر لایا گیا تو    شرط پائے جانے کی وجہ سے ’’الصریح یلحق الصریح‘‘ کے تحت دوسری رجعی طلاق واقع ہو گئی کیونکہ اگرچہ اس آدمی کو زبردستی  گھر میں لایا گیا تھا لیکن چونکہ وہ خود چل کر گھر میں آیا تھا لہذا آنے کا فعل اسی کی طرف منسوب ہو گا۔

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

درمختار مع ردالمحتار (577/5) میں ہے:

(حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه) عرفا ولو تبعا أو بإعارة باعتبار عموم المجاز.

(قوله أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو بالإجارة أو العارية إلا إذا استعارها ليتخذ فيها وليمة فيدخلها الحالف فإنه لا يحنث كما في العمدة والوجه فيه ظاهر. نهر: أي لأنها ليست مسكنا له (قوله باعتبار عموم المجاز إلخ) مرتبط بقوله يراد يعني أن الأصل في دار زيد أن يراد بها نسبة الملك، وقد أريد بها ما يشمل العارية ونحوها وفيه جمع بين الحقيقة والمجاز وهو لا يجوز عندنا. فأجاب بأنه من عموم المجاز بأن يراد به معنى عام يكون المعنى الحقيقي فردا من أفراده وهو نسبة السكنى: أي ما يسكنها زيد بملك أو عارية.

درمختار مع ردالمحتار (559/5) میں ہے:

فلو وقف بإحدى رجليه على العتبة وأدخل الأخرى، فإن استوى الجانبان، أو كان الجانب الخارج أسفل لم يحنث وإن كان الجانب الداخل أسفل حنث) زيلعي (وقيل لا يحنث مطلقا هو الصحيح) ظهيرية لأن الانفصال التام لا يكون إلا بالقدمين.

 (قوله لم يحنث) لأن اعتماد جميع بدنه على رجله التي هي في الجانب الأسفل (قوله زيلعي) ومثله في كثير من الكتب بحر (قوله هو الصحيح) عزاه في الظهيرية: إلى السرخسي وفي البحر وهو ظاهر لأن الانفصال التام إلخ. وقال في الفتح وفي المحيط: لو أدخل إحدى رجليه لا يحنث وبه أخذ الشيخان الإمامان شمس الأئمة الحلواني والسرخسي.

عالمگیری (400/6) میں ہے:

إذا حلف الرجل لا يدخل دار فلان فأدخل مكرها لا يحنث هذا إذا حمله إنسان وأدخله مكرها فأما إذا أكرهه حتى دخل معه بنفسه يحنث عندنا.

 

درمختار مع ردالمحتار (567/5) میں ہے:

(وحنث في لا يخرج) من المسجد (إن حمل وأخرج) مختارا (بأمره وبدونه) بأن حمل مكرها (لا) يحنث (ولو راضيا بالخروج) في الأصح.

(قوله بأن حمل مكرها) أي ولو كان بحال يقدر على الامتناع ولم يمتنع في الصحيح خانية، وفي البزازية تصحيح الحنث في هذه الصورة هذا. واعترض في الشرنبلالية ذكر الإكراه هنا بأنه لا يناسب قوله ولو راضيا إذ لا يجامع الإكراه الرضا. اهـ. وفي الفتح: والمراد من الإخراج مكرها هنا أن يحمله ويخرجه كارها لذلك لا الإكراه المعروف هو أن يتوعده حتى يفعل فإنه إذا توعده فخرج بنفسه حنث، لما عرف أن الإكراه لا يعدم الفعل عندنا اهـ وأقره في البحر. واعترض في اليعقوبية التعليل بما قالوا في لا أسكن الدار فقيد ومنع لا يحنث لأن للإكراه تأثيرا في إعدام الفعل. وأجبت عنه فيما علقته على البحر بأنه قد يقال إنه يعدم الفعل بحيث لا ينسب إلى فاعله إذا أعدم الاختيار وهنا دخل باختياره فليتأمل. وفي القهستاني عن المحيط لو خرج بقدميه للتهديد لم يحنث وقيل حنث. اهـ. ومفاده اعتماد عدم الحنث لكن في إكراه الكافي للحاكم الشهيد لو قال عبده حر إن دخل هذه الدار فأكره بوعيد تلف حتى دخل عتق ولا يضمن المكره قيمة العبد (قوله لا يحنث) لأن الفعل وهو الخروج لم ينتقل إلى الحالف لعدم الأمر وهو الموجب للنقل فتح (قوله في الأصح) وقيل يحنث إذا حمله برضاه لا بأمره لأنه لما كان يقدر على الامتناع فلم يفعل صار كالآمر.

وجه الصحيح أن انتقال الفعل بالأمر لا بمجرد الرضا ولم يوجد الأمر ولا الفعل منه فلا ينسب الفعل إليه.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved