- فتوی نمبر: 8-242
- تاریخ: 12 مارچ 2016
استفتاء
میرے پاس تین لاکھ روپے آئے ہیں، ان سے کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں گروی لے کر کرائے پر دے دوں۔ کیا یہ گروی لیا ہوا مکان کرائے پر دے سکتا ہوں؟ اس سے آنے والی آمدنی جائز ہو گی یا نہیں؟
ایک صورت یہ بھی ہے کہ اگر میں گروی لے کر کرائے پر دے دوں اور کرایہ سے آنے والی آمدن کا کچھ حصہ مالک مکان کو بھی دے دوں تو کیا اس صورت میں یہ آمدن میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گروی پر مکان لے کر کرایہ پر دینا جائز نہیں خواہ کل کرایہ آپ خود رکھیں یا اس میں سے کچھ حصہ مالک مکان کو دیں اور باقی خود رکھیں ۔ بہر حال دونوں صورتیں ناجا ئز ہیں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ گروی پر لیے ہوئے مکان سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آتا ہے خواہ یہ فائدہ خود رہائش رکھ کر اٹھایا جائے یا کسی کو کرایہ پر دے کر اٹھایا جائے ۔ فقط واللہ تعالی اعلم
في رد المحتار (7 / 413):
کل قرض جر نفعاً حرام فکره للمرتهن سکنی المرهونة بإذن الراهن.
لا یحل له أن ینتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن لأنه أذن له في الربا لأنه یستوفي دینه کاملاً فتبقي له المنفعة فضلاً فتکون ربا و هذا أمر عظیم…. و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved