- فتوی نمبر: 6-57
- تاریخ: 21 جون 2013
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
دکان گروی دے کر گروی والی رقم سے کاروبار کرنا سود کے ضمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
تفصیل: میرے پاس تین دکانیں ہیں، میں ان کا ماہوار کرایہ 14000 روپے وصول کرتا تھا، میں نے وہ دکانیں گروی دے دیں اور اس کے عوض 10 لاکھ روپے لے لیے، اور ساتھ میں یہ طے کر لیا کہ دکانوں کا کرایہ نہیں لیا جائے گا۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ گروی والا یہ معاملہ جو میں نے غیر ارادی طور پر یا غیر دانستہ طور پر کر دیا ہے وہ سود کے ضمرے میں آتا ہے، سود چونکہ حرام ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہوں، چنانچہ گذارش ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں مجھے تحریری فتویٰ جاری فرما دیں کہ آیا کہ یہ معاملہ سود ہے یا نہیں؟ اگر سود ہے تو پھر میری اس سے نجات کی شرعی راہ و رہنمائی بھی فرما دیں۔
گروی پر دینے کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ورکشاپ کے کاروبار کو بڑھانا چاہتا تھا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ یوں کر لیں، تو کر لیا۔ اب معاملے کی وجہ سے مجھے بجائے فائدہ ہونے کے نقصان ہو رہا ہے اور پریشانیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گروی کا مروجہ معاملہ جائز نہیں، کیونکہ گروی کی رقم در حقیقت قرض ہے جس کے مقابلے میں گروی کے مکان سے نفع اٹھایا جاتا ہے اور قرض سے نفع اٹھانا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
كل قرض جر نفعاً فهو وجه من وجوه الربا. بيهقي فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved