• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصب شدہ وراثت واپس کرنا

استفتاء

ایک عورت *** کی شادی ***سے ہوئی تھی اس سے دوبیٹیاں پیدا ہوئیں ،اس کے بعد*** کا خاوند فوت ہوگیا اس نے اپنے دیور *** سے شادی کرلی پہلے خاوند ***کی جائیداد ***  کے خاوند ***اور ایک دوسرے دیور عمرو نے آپس میں تقسیم کرلی ،*** اور اس کی دو عدد بیٹیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا گیا،***سے شادی کے بعد *** کے ہاں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی اس کے بعد خاوند ثانی *** بھی فوت ہوگیا ،وراثت پانچ بیٹوں نے لے لی اور والدہ یعنی *** اور ایک عدد حقیقی بہن اور دو عدد اخیافی بہنوں کا حصہ نہیں دیا گیااسکے بعد *** کی موجودگی میں اس کے دوعدد بیٹے فوت ہوئے ،اس کے بعد ***  بھی فوت ہو گئی،  اب بیٹوں  کو خیال آیا کہ ہمیں اپنی حقیقی بہن کو حصہ دینا چاہیے ،اس پر بعض بیٹوں نے کہا کہ اگر حقیقی بہن کو حصہ دینا ہے تو پھر دو عدد اخیافی بہنوں کو بھی (جو کہ اب فوت ہوچکی ہیں او ر فوت بھی والدہ یعنی *** کے بعد ہوئی ہیں  اور ان کی اولاد موجودہے) حصہ  دینا چاہیے  اس پر سب بھائی راضی ہوگئے ،اب مفتی صاحب سے وضاحت مطلوب ہے کہ آیا ان بھائیوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنی اخیافی بہنوں کو بھی حصہ دیں یا صرف حقیقی بہن کو حصہ دینا ضروری ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  صرف حقیقی بہنوں کو ہی حصہ دینا ضروری نہیں بلکہ اخیافی بہنوں کو بھی حصہ دینا ضروری ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ *** کی کل وراثت میں سے دوتہائی (3/2) حصہ اور *** کی کل وراثت (خواہ وہ اسے اپنے  شوہر *** سے ملی ہو یا اپنے شوہر *** سے ملی ہو یا کہیں اور سے ملی ہو اس ) کے 9 حصے کرکے 1-1 حصہ اخیافی بہنوں میں سے ہر ایک کو ملے گا۔

نوٹ: مذکورہ جواب اس صورت میں ہے  جب *** کی وفات کے وقت *** کے والدین میں سے کوئی زندہ نہ تھا اگر *** کی وفات کے وقت *** کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ تھا تو مسئلہ دوبارہ معلوم کرنا ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved