• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گھوڑے کے گوشت کی شرعی حیثیت

استفتاء

روس سے آزاد شدہ ایشائی وسطی ریاستوں یعنی ازبکستان، قاذقستان، کرغستان وغیرہ میں اکثر لوگ گھوڑے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ ان کا پسندیدہ کھانا ہے۔ کیا گھوڑے کا گوشت حلال ہے؟ حالانکہ وہ بھی سارے حنفی مسلک کے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں نہیں کھاتے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بعض حدیثوں سے گھوڑے کی حلت معلوم ہوتی ہے لیکن مندرجہ ذیل حدیث میں ممانعت مذکور ہے:

عن خالد بن وليد قال نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن أكل لحوم الخيل.

ترجمہ: حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ گھوڑا فی نفسہ تو حلال ہے لیکن کسی وجہ سے اس کے کھانے سے ممانعت کر دی گئی۔ بہت ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ گھوڑا جہاد کا جانور ہے اور جہاد کی خاطر اس کی بقا کو اور اس کے تحفظ کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہو۔ (از فہم حدیث)

في الدر المختار (6/ 304):

و لا يحل ذو ناب يصيد بنابه فخرج نحو البعير أو مخلب يصيد بمخلبه أي ظفره فخرج نحو الحمامة من سبع … و البغل الذي أمه حمارة، فلو أمه بقرة أكل اتفاقاً و لو فرساً و كأمه و الخيل و عندهما و الشافعي تحل. و قيل إن أبا حنيفة رحمه الله رجع عن حرمته قبل موته بثلاثة أيام و عليه الفتوى. قال الشامي تحت قوله (و الخيل) كذا قال ابن كمال باشا عطفاً على قوله ”لا تحل ذو ناب“ و مثله في الاختيار. و عبارة القدوري و الهداية: و يكره أكل لحم الفرس عند أبي حنيفة رحمه الله . و المكروه تحريماً يطلق عليه عدم الحل شرنبلالية…. و قوله (وعليه الفتوى) فهو مكروه كراهة تنزيه و هو ظاهر الرواية كما في كفاية البيهقي و هو الصحيح على ما ذكره فخر الإسلام و غيره. قهستاني. ثم نقل تصحيح كراهة التحريم عن الخلاصة و الهداية و المحيط و المغني و قاضيخان و العمادي وغيرهم و عليه المتون………….. فقط و الله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved