• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں طلاق

استفتاء

میں جو کچھ بھی کہوں گا سچ سچ کہوں گا۔ اس دن کا ذکر ہے۔ کہ رات 30: 11 کا وقت تھا۔ میری طبیعت خراب تھی سر میں درد تھا۔ میں پیٹ کا مریض ہوں۔ میں اکثر اوقات پیٹ کی دوائی لیا کرتا ہوں۔ اس دن بھی میں یہ سمجھا میری پیٹ یا معدہ کی خرابی کی وجہ سے میرے درد ہے سر میں کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ پیٹ یا معدہ کی خرابی کی وجہ سے سر میں درد ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے اس کی دوائی مانگی وہ تین گولیاں اور ایک کیپسول ہے اس نے دو دے دی۔ مجھ کو غصہ آیا۔ میں نے اس کو برا بھلا کہا۔ اور دوائی مانگی اس نے مجھے تین گولیاں دیں۔ میں اور غصہ میں آگیا۔ اور خلاف عادت رونا اور بال نوچنا اور اپنے سر کو پیٹنا شروع کردیا۔ اور اس کو گھر سے جانے کو کہا کہ برقعہ پہن اور نکل جا۔ اس نے جانے سے منع کیا اور کہا میں صبح چلی جاؤں گی۔ میں باز نہ آیا۔ اور وہ چلی گئی۔ میں دروازے میں دیکھنے گیا ۔ وہ گئی یا نہ گئی۔ اس کو روک لوں گا جب دروازے پر گیا تو وہ میرے بھائی کے ساتھ واپس آرہی تھی۔ میں نے آنے نہ دیا۔ میرے بھائی نے قسمیں دی کہ مجھ کو اندر بھیج دیا اور وہ چلی گئی۔ پھر بھائی اس کے پیچھے گیا۔ اور ابو کو فون پر میری بیوی سے بات کروا کر گھر لے کر آیا۔ ابو گھر ہی میں تھے وہ مجھ پر برس پڑے اور مجھ کو برا بھلا اور میری بیوی کو برا بھلا کہنے لگ گئے۔ پھر میرے والد مجھ سے دین کی رو سے بات کرنے لگے تو میں نے نہ سنی اور کہا مجھ کو سب پتہ ہے۔ میں نہیں سننا چاہتا اور ادھر ادھر گھومنے لگا کسی طرح باہر چلا جاؤں تو انہوں نے جانے نہ دیا۔ پھر کمرہ میں میرا جھگڑا شروع ہوگیا اور والد صاحب کچھ کچھ کہنے لگے۔ اور پھر انہوں نے کہا تو پاگل ہوگیا ہے ذہنی مریض بن گیا ہے۔ میں نے کہا ہاں قسم سے میں ذہنی مریض بن ہوگیا ہوں۔ میں اس سے پہلے تین دن سے دعا کر رہا ہوں۔ اور میری خواہش ہے میں مر جاؤ یا خود کشی کرلوں گا۔ تو پھر میری والدہ سے کچھ میری بات ہونے لگی۔ اور پھر میں نے اپنی بیوی جو سامنے تھی کو کہا یہ میرا کہا نہیں مانتی۔ میری والدہ اس کی سائیڈ لینے لگی اور پھر میں نے کہا کہ ’’ میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، فارغ ہے۔ ‘‘جملہ ایک سانس میں نہ کہا۔ کیونکہ میں بے حواس تھا جو میں کہہ رہا تھا سن رہا تھا مگر جملہ کیا کہہ رہا ہوں۔ پتہ نہ تھا اور دوبارہ کہہ کر روکا تھوڑا سا یہ مجھ کو یاد ہے اور اپنے چہرے اور سر کے بل اور ذہن میں کچھ محسوس کیا۔ سر میں درد تھا اور پھر تین بار کہا گیا۔ میرے جملے کیسے نکلے پتہ نہیں لگا، رکنا چاہا نہ رک سکا۔ کیا کہہ رہا ہوں یہ سنا لیکن جملے میرے نہ تھے نہ میں کہنا چاہتا تھا۔ اور نہ میری نیت یا ارادہ تھا ایک دم میری والدہ بولی تم نے اس کو طلاق دی۔ پھر پتہ چلا کہ میں کیا کہہ گیا۔ میں نے فوراً ان سے کہا میں نے طلاق نہیں دی بلکہ انشاء اللہ کہا۔ حالانکہ میں نے ساتھ انشاء اللہ نہ کہا تھا۔ مجھ کو بعد میں پتہ چلا میں نے کیا کہا۔ میرا ذہن ٹھیک نہ تھا۔ جملوں کے دوران تو بالکل نہیں کیونکہ مجھ کو اچھی طرح یاد ہے کہ جملوں کے دوران میرے ذہن میں کچھ چل رہا تھا۔ یہ کیا تھا پتہ نہیں۔ ذہن ٹھیک نہ تھا سر درد کی وجہ سے لڑائی کے دوران جملوں سے پہلے میرے والدین کو میرے سر درد کا پتہ تھا۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے کہا ہاں سر میں درد ہے۔ شاید گیس ہے میرے والد کہنے لگے سر درد گیس سے  نہیں بلڈ پریشر سے ہوتا ہے۔ میں نے منع کردیا۔ اور پھر اس موقع کے اگلے دن میں نے بلڈ پریشر چیک کروایا اس دن بھی سر میں درد تھا۔ سر درد میں میرا سر گھومتا ہے۔ چکر آتے ہیں۔ ڈاکٹر سے چیک کروانے سے پھر پتہ چلا کہ مجھ کو بلڈ پریشر ہے۔ اس سے پہلے نہ پتہ تھا۔ اور نہ چیک کروایا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ بلڈ پریشر ہے 150 یا اس سے زیادہ اور چیک کرواتے وقت اس دن پہلے روز کی بنسبت کافی کم درد تھا میرے سر میں۔ اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟

۱۔ میری نیت اور ارادہ نہ تھا۔

۲۔ مجھ کو پتہ نہ تھا کیا کہہ رہا ہوں۔ لیکن سن رہا تھا۔ رکا بھی اور ذہن میں گڑبڑ بھی محسوس کی پھر بھی کہہ گیا۔

۳۔ میری بیوی اور والدین مجھ کو اکثر کہتے کہ تم کو پتہ نہیں چلتا کیا کہہ رہے ہو اور بول جاتے ہو۔ اور یہ بات میں مانتا ہوں۔

۴۔ کچھ عرصہ پہلے میں سوچ رہا تھا کہ اپنا ذہنی علاج کرواؤں۔

۵۔ ایک مسجد کے مفتی صاحب نے بھی مجھ کو مشورہ دیا تھا کہ علاج کراؤ۔

۶۔ میں حلف لیتا ہوں کہ میری نیت اور ارادہ نہ تھا۔

۷۔ ہم اکٹھے رہتے ہیں اور میری بیوی کبھی طلاق نہ ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔

۸۔ اب آپ کہیں گے طلاق تو مان لوں گا مگر بیوی نہیں مانتی۔

۹۔ اب بھی عجیب کشمکش کا شکار ہوں۔ پتہ نہیں کیا ہوگا؟ اگر اللہ نہ کرے طلاق ہوگئی تو حلالہ کےلیے بھی تیار ہوں۔

آپ نے پوچھا تھا بیوی کیا سمجھتی ہے۔ تو وہ طلاق نہیں سمجھتی اور میں بھی لیکن میں ذہنی تناؤ کا شکار ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر طلاق کی نیت و ارادہ نہ ہونے کی قسم کھائے تو کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

کیونکہ سوال میں ذکر کردہ غصہ کی حالت تینوں حالتوں میں سے درمیان کی ہے جس میں ہوش و حواس اور عقل میں خلل واقع ہو جاتا ہے اور آدمی اتنا مغلوب ہو جاتا ہے کہ اس سے اکثر باتیں اور افعال خلاف عادت صادر ہونے لگیں اگرچہ اس کو پتا چل رہا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

يقال فيمن اختل عقله لكبر أو مرض أو لمعصية فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح. ( شامی: 2/ 463) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved