• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت ایک بندے نے غصےمیں اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہیں،انکی شادی کو تقریبا 5سال ہوگئے ہیں ،ایک چھوٹا سا بچہ ہے،جس کی عمر  5سال ہے ۔اب میاں بیوی دونوں بہت شرمندہ ہیں.اور لڑکی کے والد نے دونوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔لڑکا غریب گھرانے سے ہے،گھر والے سخت پريشان  ہیں.اگر آپ اس مسلہ کا کوئی مناسب حل بتا دیں. آپ کی عین نوازش ہو گی.   بندہ.                 عبداللہ ھری پور

وضاحت مطلوب ہے:غصے کی پوری تفصیل بیان کریں؟

جواب وضاحت: حضرت وہ بندہ غصے والا ہے چھوٹی چھوٹی  بات پر  اسے غصہ آجاتا ہے، اکثر والدین اور بہن بھائیوں پر بھی غصہ ہو جاتا ہے.اور بیوی پر تو روزانہ ہی غصہ کرتا ہے. طلاق سےایک دن پہلے ان  کا آپس میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا.اگلے  دن وہ مزدوری کر کے تھکا ہوا واپس آیا،.بیوی سے کوئی کام کہاجس پر اس نے دیر کر دی.اور بیوی کے تاخیرکرنے پر اور زیاد ہ غصہ میں  آگیا.جس پر اس نے بیوی کو ڈانٹا.تو بیوی نے آگے سے جواب دے دیا.اس پر اس نے کہا ،میں تمہیں طلاق دوں گا.’’تمہیں طلاق، طلاق، طلاق ہے ‘‘الفاظ یہ تھے.غصہ کی کیفیت یہ تھی کہ لڑکے کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے ،خلاف عادت کوئی قول یا فعل غصے میں لڑکے سے صادر نہیں ہوا۔

اب دونوں بہت رو رہے ہیں..لڑ کی کے خاندان  میں پہلے  بھی 3 لڑکیوں کو طلاق ہو چکی ہے.لڑکی کے والد نے لڑکے سے کہا …میں تم دونوں کو قتل  کردو ں گا.اب دونوں بہت پریشان ہیں .ایک اہلحدیث نے ان سے کہا ہے کہ  آپ  مجھےکچھ پیسے دو میں آپ کا مسئلہ حل کرا دیتا ہوں. لیکن آپ کو اہلحدیث ہونا پڑے گا.اور میں سب کے سامنے ثابت کروں  گا کہ طلاق نہیں ہوئی.حضرت یہ لڑکا میرے بھائی کی جگہ ہے ،میں نے اسے کہا کہ میں پوری کوشش کروں  گا آپ کا مسئلہ حل کروانے کی.انشااللہ..میں نے آپ کا نمبر  نیٹ پر دیکھا تھا اس ليے آپ سے رابطہ کیا.حضرت اب آپ اس مسئلہ  کامناسب حل نکالیں ،آپ کی بڑی مہربانی ہوگی.جزاک اللہ خیرا.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل صادر ہوا ہے، غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله……………

 فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛

لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved