• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گروی کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم بھائیوں نے مل کر کچھ عرصہ قبل ایک مکان گروی لیا جس میں ہم اب بھی رہائش پذیر ہیں ۔کچھ مہینے قبل مجھے پتہ چلا کہ گروی مکان لینا شرعا جائز نہیں ہے ۔بھائی سے بات کی لیکن وہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔اب جس حصے میں میں رہتا ہوں اس کاکرایہ مارکیٹ کے لحاظ سے چھ ہزار روپے بنتا ہے میں نے اڑھائی ہزار روپے بطور کرایہ کے دینا شروع کردیا ہے تاکہ گناہ سے بچ سکوں ۔غریب آدمی ہوں زیادہ کرایہ کا متحمل نہیں ہوں ۔میرے لیے کیا حکم ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مروجہ گروی کی حقیقت قرض سے نفع اٹھانے کی ہے کیونکہ یکمشت رقم قرض ہوتی ہے جو بہرصورت واپس ہوتی ہے اس قرض کے بدلے میں قرض دہندہ مقروض کے مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے، چاہے بالکل کرایہ نہ دے یا مارکیٹ ریٹ سے کم دے ،فائدہ دونوں صورتوں میں اٹھایا جاتا ہے ۔مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے کرایہ دینا شروع کردیا ہے مگر چونکہ یہ مارکیٹ ریٹ سےکم ہے اس لیے ابھی معاملہ درست نہیں ہوا۔اس معاملے کو درست کرنے کاطریقہ کیا ہوسکتا ہے یہ براہ رست دارالافتاء میں آکر سمجھا جاسکتا ہے۔

فی الشامی:10/86

قوله:قیل لایحل للمرتهن لانه ربا قال فی المنح وعن عبدالله محمد بن اسلم السمرقندی وکان من علماء سمرقند انه لایحل له ان ینتفع بشئ منه بوجه من الوجوه وان اذن له الراهن،لانه اذن له فی الربا لانه یستوفی دینه کاملافتبقی له المنفعة فضلا فیکون ربا وهذا امرعظیم۔

فی الشامی:10/87

قال الطحطاوی قلت والغالب من احوال الناس انهم انما یریدون عند الدفع الانتفاع ولو لاه لما اعطاہ الدراهم وهذا بمنزلة الشرط لان المعروف کالمشروط وهو مما یعین المنع ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved