• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گودام میں موجود مال، جو مال ابھی تک قبضے میں نہیں آیا، اور لوگوں سے لینے والے پیسوں میں زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

غلہ منڈی میں اپنے مال کی زکوٰۃ نکالنے کے حوالے سے آڑھتی حضرات کا کہنا ہے کہ کچھ مال گودام میں ہوتا ہے اور کچھ وہ ہے جو خرید چکے ہیں لیکن ابھی قبضہ نہیں کیا۔ اسی طرح دوسروں سے پیسے لینے ہوتے ہیں جو لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض پیسے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ پیسے واپس نہیں ملنے۔ لہذا مذکورہ بالا صورتوں کو دیکھتے ہوئے زکوٰۃ کے احکامات تفصیل سے ذکر فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب زکوٰۃ کا سال پورا ہو جائے تو اس وقت (1) جو مال گودام میں موجود ہے اور (2) جو مال آگے فروخت کرنے کے لیے خریدا ہے اگرچہ ابھی اس پر قبضہ نہیں کیا، اور (3) جو پیسے لوگوں سے لینے ہیں اور ان کے ملنے کی امید ہے، ان سب کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔ البتہ جن پیسوں کے ملنے کی امید نہ رہی ہو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں۔

نوٹ: جو مال گودام میں موجود ہے یا جو مال خریدا ہے اور ابھی اس پر قبضہ نہیں کیا، ان کی قیمتِ فروخت پر زکوٰۃ آئے گی نہ کہ قیمتِ خرید پر۔

الفقه الإسلامي وأدلته: (2/792، ط: دار الفكر):

يقوم التاجر العروض أو البضاع التجارية في كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة لا بحسب سعر شرائها.

التاتارخانية: (2/179، ط: بيروت):

ذكر محمد في ”الرقيات“ أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم يعني غالب ذلك البلد.

الدر المختار (2/263، ط: ايچ ايم سعيد)

ولا في ما اشتراه للتجارة قبل قبضه. وفي الشامية: وأما بعده (أي بعد القبض) فيزكيه عما مضى.

الفتاوى الهندية: (1/88):

وأما البيع قبض القبض فقيل: لا يكون نصاباً والصحيح أنه يكون نصاباً كذا في محيط السرخسي.

البحر الرائق: (2/225):

وذكر في المحيط …. أن المبيع قبل القبض، قيل: لا يكون نصابا؛ لأن الملك فيه ناقص …. والصحيح أنه يكون نصابا ؛ لأنه عوض عن مال كانت يده ثابتة عليه ، وقد أمكنه احتواء اليد على العوض فتعتبر يده باقية على النصاب باعتبار التمكن شرعا ا هـ فعلى هذا قولهم: لا تجب الزكاة معناه قبل قبضه وأما بعد قبضه فتجب زكاته فيما مضى كالدين القوي.

بدائع الصنائع للكاساني: (2/88،89،90):

وأما الشرائط التي ترجع إلى المال….. ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويداً… فلا تجب الزكاة في مال الضمار عندنا… وهو المال الذي لا ينتفع به مع قيام الملك … ولأن المال إذا لم يكن مقدور الانتفاع به في حق المالك به غنياً … وأما الدين المجحود فإن لم يكن له بينة فهو على الاختلاف وإن كان له بينة اختلف المشايخ فيه قال بعضهم : تجب الزكاة فيه ؛ لأنه يتمكن الوصول إليه بالبينة فإذا لم يقم البينة فقد ضيع القدرة فلم يعذر ، وقال بعضهم : لا تجب ؛ لأن الشاهد قد يفسق…وإن كان المديون يقر في السر ويجحد في العلانية فلا زكاة فيه … إن كان الدين مالا مملوكا أيضا لكنه مال لا يحتمل القبض ؛ لأنه ليس بمال حقيقة بل هو مال حكمي في الذمة وما في الذمة لا يمكن قبضه فلم يكن مالا مملوكا رقبة ، ويدا فلا تجب الزكاة فيه كمال الضمار. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved