• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گوگل اشتہار کے پروگرام ایڈ سینس کے ذریعے کمائی کا حکم

استفتاء

السلام علیکم حضرت امید ہے بخیریت ہوں گے۔ ایڈسینس کی کمائی کا کیا حکم ہے؟ براہ مہربانی باحوالہ بتا دیں تو بہت نوازش ہو گی۔

ایڈ سینس گوگل کا ایک پروگرام ہے جو اشتہارات کے ذریعے پیسے کمانے کا ذریعہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ میں کوئی ویب سائٹ بنا کر یا یوٹیوب پر اپنی بنائی ہوئی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے گوگل کو اس بات کی اجازت دے دیتا ہوں کہ وہ میری ویب سائٹ یا یوٹیوب ویڈیوز پر مختلف لوگوں کی طرف سے دیے گئے اپنے اشتہارات چلائے۔ میری ویب سائٹ یا یوٹیوب پر رکھی میری ویڈیو کو جتنے لوگ بھی دیکھیں گے اسی حساب سے مجھے گوگل ادائیگی کرے گا، اس مقصد کے لیے ایڈ سینس پر اپنی رجسٹریشن کروانی ہوتی ہے اور اسی ایڈسینس پروگرام کے ذریعے پے منٹ آتی ہے، باقی یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اشتہارات لگوائیں نہ لگوائیں اگر نہیں لگوائیں گے تو پیمنٹ نہیں ہو گی اور نہ اشتہارات چلیں گے، اشتہارات لگانے کے حوالے سے گوگل کی مرضی ہے کہ وہ جیسے مرضی اشتہارات چلائے۔

گوگل اشتہارات دینے میں اپنی ایک ترتیب رکھتا ہے جس کے تحت وہ اشتہارات دیتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ  گوگل اپنے ہر ناظر کی اپنے پاس سرچ ہسٹری محفوظ رکھتا ہے یعنی یہ دیکھتا ہے کہ اس ناظر نے اس آئی پی ایڈریس سے کیا کیا چیزیں سرچ کی ہیں اور کس قسم کا مواد دیکھا ہے اور کس قسم کے مواد کا کیا تناسب ہے۔

اس مواد اور تناسب سے وہ اپنے ناظر کی دلچسپی کا اندازہ لگاتا ہے کہ یہ آدمی کس قسم کی چیزوں میں دلچسپی رکھتا ہے، جو آدمی  جس قسم کی چیزوں میں دلچسپی رکھتا ہو اسے اسی نوعیت کے اشتہارات گوگل دکھاتا ہے تاکہ اشتہار کا واقعی فائدہ بھی ہو کیونکہ جس کو اشتہار کی چیز سے دلچسپی نہیں ہو گی وہ اس چیز کو کیوں خریدے گا۔

دکھائے جانے والا اشتہار کس قسم کے مواد پر مشتمل ہو گا۔ ناجائز ہو گا یا جائز؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ گوگل کے مطابق اشتہار کو دیکھنے والا متوقع آدمی کس دلچسپی کا حامل ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی کتابوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو اسے اسی قسم کے اشتہارات آئیں گے، اگر کوئی فلموں اور گانوں وغیرہ میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس قسم کے۔ چونکہ نیٹ پر سرچ اکثر و بیشتر ناجائز ہوتی ہے اس لیے ظنِ غالب یہ ہے کہ گوگل کے دیے جانے والے اشتہارات مکمل جائز مواد پر مشتمل نہیں ہوں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملے میں دو باتیں قابل غور ہیں:

1۔ عقد کی فقہی تکییف و توجیہ کیا ہے؟

2۔ یہ ناجائز کام میں تعاون تو نہیں ہے؟

1۔ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ یہ صورت اجارہ کی ہے، گوگل ویڈیو یا ویب سائٹ کے مالک سے جگہ حاصل کرتا ہے کہ وہ اس پر اشتہارات لگائے گا اور اس جگہ کے استعمال کے عوض وہ مالک کو اجرت دے گا۔ اجرت کی مقدار لگی بندھی نہیں بلکہ اس اشتہار کو دیکھنے والے ناظرین کی تعداد کے ساتھ منسلک ہے۔ کسی چیز کے اجارہ میں اجرت کو کسی خاص تناسب کے ساتھ منسلک کرنے کا نتیجہ اجرت کی جہالت اور تردد ہوتا ہے۔ اور اجارہ میں اجرت کی جہالت اگرچہ عقد کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن اگر جہالت ایسی ہو جو جھگڑے کا باعث نہ ہو اور اس کا عرف بھی ہو تو اس جہالت کا تحمل کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ صورت میں اگرچہ اجرت کی حتمی مقدار کا علم نہیں تاہم وہ ایسے طریقے سے منضبط کی گئی ہے کہ اس کا نتیجتاً معلوم ہونا مشکل نہیں۔

2: دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت (1) نہ تو اعانت علی المعصیت کی ہے۔ (2) اور نہ ہی سبب جالب کی ہے اور (3) نہ ہی متمحض للمعصیت ہے اور (4) نہ ہی موجر کو علم بالمعصیت حتمی درجے میں ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ گوگل اس پر غیر شرعی اشتہارات ہی چلائے گا۔ بلکہ احتمال دونوں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاً اشتہارات دونوں قسم کے چلتے ہیں اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے حجام (نائی) کو دکان کرائے پر دینا اس میں یہ ضروری نہیں کہ حجام داڑھی یقیناً      کاٹے گا  بلکہ داڑھی کاٹنے کا صرف ایک احتمال ہے کہ اگر گاہک آئے گا تو کاٹے گا، نہیں آئے گا تو نہیں کاٹے گا۔ حجام کو دکان کرائے پر دینے  کی بابت بعض اردو فتاویٰ میں جواز لکھا ہے (دیکھیے آپ کے مسائل، فتاویٰ مفتی محمود، فتاویٰ دار العلوم ویب سائٹ)۔ اسی طرح گوگل پہلے سے یہ طے کیے نہیں بیٹھا کہ ہم ناجائز مواد والے اشتہار ضرور دیں گے، وہ تو طلب پر ہے اگر مطالبہ ہو گا تو چلائے گا، نہیں ہو گا تو نہیں چلائے گا۔[1]اس لیے یہاں غلط اشتہارات کی ذمہ داری سائل پر نہیں ہے تاہم چونکہ اکثر و بیشتر اشتہارات غلط مواد پر مشتمل ہوتے ہیں اس لیے احتیاط کرنی مناسب ہے۔

نوٹ: یہ جواز اس صورت میں ہے کہ جب خود سائل کی جانب سے یوٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیو کسی ناجائز عنصر مثلاً جاندار کی تصویر پر مشتمل نہ ہو کیونکہ ایسی ویڈیو کا تو بنانا اور اپ لوڈ کرنا ہی درست نہیں۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1] ۔ اردو فتاویٰ میں حجام کو دکان کرائے پر دینے کے بارے میں آراء یہ ہیں:

فتاویٰ حقانیہ والوں نے اعانت علی المعصیت کی وجہ سے ناجائز کہا ہے (6/277)۔ جبکہ فتاویٰ مفتی محمود میں جواز ہے (1/362) اسی طرح ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘سے بھی جواز مستفاد ہے (6/145)، دار العلوم دیوبند کی سائٹ پر بھی جواز لکھا ہےو نصہ: (سوال: کیا مسجد یا مدرسہ کی دکان کرایہ پر حجام کو دینا جائز ہے؟ جواب: بہتر نہیں ہے۔)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved