- فتوی نمبر: 9-177
- تاریخ: 26 اکتوبر 2016
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گوشۂ*** میں واقع*** ویلفیئر ٹرسٹ کا ادارہ ہے۔ گوشۂ شفاء ہسپتال میں مختلف شعبہ جات میں کام ہو رہا ہے، جس میں ایک شعبہ ڈائیلسز یونٹ کا ہے۔ ڈائیلسز یونٹ کو زکوٰۃ کے خصوصی فنڈ ز سے چلایا جاتا ہے۔ ڈائیلسز یونٹ میں زکوٰۃ سے متعلقہ تمام معاملات کو ایک مفتی صاحب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی مفتی صاحب کی نگرانی میں شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کی جاتی ہے جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ معطی کا وکیل ہر ڈائیلسز پر مریض کو مقررہ زکوٰۃ کی رقم دے دیتا ہے اور مریض خود اپنی مرضی سے وہ رقم ڈائیلسز کی مد میں ہسپتال کو جمع کروا دیتا ہے۔
مریضوں کے بڑھتے ہوئے ہجوم کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ ڈائیلسز یونٹ میں مزید ڈائیلسز مشینیں لگانے کی خواہشمند ہے اور اس کے لیے مخیر حضرات سے زکوٰۃ و صدقات کی اپیل بھی کر رہی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نئی مشینیں خریدنے کے حوالسے چند ایک سوالات کے شرعی جوابات چاہتی ہے تاکہ ڈائیلسز یونٹ کے لیے نئی مشینیں خریدتے وقت شریعت کے حکم کو مد نظر رکھا جائے اور ہر قسم کے شک وشبہ کے احتمال سے بھی بچا جا سکے۔
مندرجہ ذیل سوالات یہ ہیں:
1۔ کیا ہسپتال انتظامیہ ڈائیلسز مشینیں ڈائریکٹ زکوٰۃ کی رقم سے خرید سکتی ہے؟
2۔ ڈائیلسز کی مد میں جو چارجز ہسپتال انتظامیہ نے مقرر کیے ہوئے ہیں اس میں کچھ زائد چارجز ایسے رکھ لیے جائیں جو ڈائیلسز اخراجات میں شامل نہ ہوں اور ان زائد اخراجات کو جمع کر کے ڈائیلسز مشینیں خریدی جا سکیں؟
3۔ ایک صاحب خیر ہسپتال انتظامیہ کو زکوٰۃ کی مد میں ڈائیلسز مشینیں خرید کر دینا چاہتا ہے۔ کیا ہسپتال انتظامیہ مشینیں لے سکتی ہے؟
4۔ اگر کوئی صاحب خیر ہسپتال انتظامیہ کو زکوٰۃ کی رقم اس لیے دے کہ ہسپتال انتظامیہ اس رقم سے ڈائیلسز مشینیں/ بلڈنگ کی تعمیر/ اے سی/ مریض کے بیڈ/ انسٹرومنٹس وغیرہ خرید سکے تو ایسی صورت میں ہسپتال انتظامیہ کیا کرے؟
5۔ زکوٰۃ دینے والے اشخاص وکیل مقرر کر کے اپنی زکوٰۃ ہسپتال میں جہاں چاہیں خرچ کرنے کا اختیار تفویض فرما دیتے ہیں تو کیا ایسی رقوم کا استعمال وکیل اپنی مرضی سے کر سکتا ہے؟ (یا مستحقین زکوٰۃ میں ماہانہ راشن کی تقسیم اور تعلیمی اخراجات جیسا کہ تعلیمی ادارے کی فیس، کتابیں وغیرہ)۔
براہ کرم ہسپتال انتظامیہ کی شریعت کی رو سے رہنمائی فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی مستحق زکوٰۃ مسلمان کو مالک بنا کر دی جائے، لہذا مذکورہ صورت میں ہسپتال انتظامیہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کو براہ راست مذکورہ مشین خریدنے میں استعمال کرے۔
2۔ دوسرے ہسپتال ڈانلسز کے جو زیادہ سے زیادہ چارجز لے لیتے ہیں اتنے چارجز رکھ سکتے ہیں اس سے زائد نہ رکھیں۔
3۔ مذکورہ صورت میں چونکہ زکوٰۃ کسی مستحق زکوٰۃ مسلمان کو نہیں دی جا رہی اس لیے ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔
4۔ ایسے آدمی کو مسئلہ سمجھا دیا جائے کہ ان کے ایسا کرنے سے ان کی زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔
5۔ زکوٰۃ کی ایسی رقوم کو وکیل جہاں چاہے خرچ کر دے یہ جائز نہیں، وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ مسلمان کو مالک بنا کر دے۔
في الشامية:
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكاً) لا إباحة كما مر، لا يصرف إلى بناء نحو مسجد ولا إلى كفن ميت وقضائ دينه. قوله نحو مسجد كبناء القناطير وسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا يملك فيه. (3/ 342)
وأيضاً:
فمصرفه كالغنائم هو فقير وهو من له أدنى شيء أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة إلخ. (3/ 333)
و في الهندية:
إذا وكل في أداء الزكاة أجرأته النية عند الدفع إلى الوكيل … فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أنه يدفع إلى الفقراء فدفع ولم ينو عند الدفع جاز. (1/ 171)
© Copyright 2024, All Rights Reserved