• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گارنٹی کی حیثیت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام   ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  فتاویٰ حقانیہ میں باب الکفالہ کے تحت  گارنٹی کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ، اور فرمایاہے کہ یہ کفالہ بالدرک  ہے اور یہ جائز ہے ۔ حالانکہ اس پر اشکال ہے :

1۔کفالہ میں تو کفیل تیسراشخص ہوتاہے اور گارنٹی کی صورت  میں عاقد واحد خود ہی کفیل ہوتاہے۔

2۔گارنٹی کی اپنا کارڈہوتاہے ، جب مشتری کو دکاندار پر اعتماد نہیں ہوتاہے تو دوسطروں والی کاغذ پر کیسا اعتماد آجائے گا۔

3۔گارنٹی میں یہ گارنٹی شرط داخل فی صلب العقد ہوتاہے ،اور نہی رسول اللہ ﷺ عن بیع و شرط /الحدیث۔

اگر ان کے جواز وعدم جوازپر باحوالہ جواب عنایت فرمائیں تو جناب کی عین نوازش ہوگی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں گارنٹی کی حیثیت کفالہ بالدرک کی نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت شرط کی ہے ۔جیسا کہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے تقریر ترمذی میں واضح فرمایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں :

"اصل قاعدہ تو یہ ہے کہ جب بائع نے ایک چیز فروخت کردی تو اس کے بعداس کی مرمت کرنا یا سروس کرنا اس کی ذمہ داری  میں داخل نہیں ہے  اور یہ شرط کہ وہ ایک سال تک مفت سروس کرے یا اس کی مرمت کرے  یہ مقتضائے عقد کے خلاف ہے  لیکن چونکہ اس  کا رواج عام ہوگیاہے ۔۔۔اوروہ مفضی الی النزاع بھی نہیں ہوتی اس لئے مفسد عقدبھی نہیں ہوتی”۔فقط /تقریر ترمذی 1/94

اور فقہاء کے نزدیک شرط سے وہ شرط مراد ہے جو نہ تو متعارف ہو اور نہ ہی عقد اس کاتقاضا کرتاہو اور نہ ہی  وہ عقد کے مناسب ہو۔جوشرط متعارف ومروج ہو یا عقد اس کا تقاضا کرتاہو یا وہ عقد کے مناسب ہو ایسی شرط نہی کے تحت داخل نہیں ۔ جیساکہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل موجو د ہے۔

ثم جملة المهب فيه (ای في الشرط)أن يقال كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري  لا يفسد العقد وكل شرط لايقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين … يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري ….المبيع إلا أن يكون متعارفاً /هدايه ص:78 ج 1

البيع بشرط متعارف يعني الشرط المرعی في عرف البلدة صحيح والشرط  معتبرأی  وإن كان لاتقتضيه  العقدولا يلائمه./شرح المجلة  ص :64 ج1فقط والله تعاليٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved