• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گڈول کی رقم میں بہنوں کا اپنے حصے کا دعویٰ

استفتاء

پاکستان بننےکے وقت حکومت نے انار کلی بازار کی ایک دکان شیخ*** کی۔ وہ دکان شیخ ** نے***  کو کرائے  پہ دے دی*** کے چار بیٹے  **** اور ***تھے اور چار بیٹیاں تھیں(آج تک اس دکان پر**کی بعض اولاد بطور کرایہ دار موجود ہے)پھر*** کی وفات ہوگئی اور ** کے بیٹوں کی رضامندی سے اس  دکان  کی کرایہ داری ایک بیٹے **کے نام پر منتقل ہوگئی ۔

تقریباً بیس برس قبل شیخ **نے دکان **صاحب کو بیچ دی داؤد نے بھی کرایہ داری برقرار رکھی۔ اوروہ دکان***کے دوسرے بیٹے **کے دو بیٹوں **اور **نے **کے ذریعہ سے بات کرکے ***کو 20لاکھ روپے دیئے اور آئندہ کے لئے کرایہ دار کے طور پر اپنا نام ڈلوالیا۔

اب **صاحب کرایہ داروں سے اپنی دکان خالی کروانا چاہتے ہیں۔ چونکہ کرایہ داری پرانی چلی آرہی ہے اس لئے آپس میں اتفاق رائے سے **صاحب نے کرایہ دار کو 65لاکھ روپے بطورگڈول دینا منظور کیا ہےاس وقت دکان پر ***اور **کےبچے کام کرتے ہیں **فوت ہوگیا ہے اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور ***پہلے ہی 20 لاکھ لے کر الگ ہوگیا تھا۔

اب***کی چار بیٹیاں بھی داؤد کے پاس آگئی ہیں کہ آپ جس دکان کی گڈول دے رہے ہیں وہ  اصلا ہمارے والد کی ہے اس لئے ہمیں وراثت میں حصہ دیں۔ جبکہ موجودہ قابض چاہتے ہیں کہ تمام رقم انہیں ملے۔ ***صاحب نے یہ معاملہ انار کلی کی یونین میں تصفیہ کے لئے بھیجا ہے۔ آپ بتائیں کہ کیا شریعت کے مطابق گڈول میں **کی بیٹیوں کا حصہ ہے یا نہیں؟

تنقیح (1)**نے اپنی زندگی میں اس دکان میں مزید کوئی قابل اعتبار اضافہ، تعمیر یا اشیاء کی صورت میں نہیں کیا تھا ۔ (2)اس بارے میں مارکیٹ کا عرف یہ کہ گڈول کی رقم کو وراثت سمجھا جاتا ہے اور وہ سب ورثاء میں تقسیم کی جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اوّل تو گڈول کی رقم لینا  ہی درست نہیں ، اور اگر لینی  ہے تو اس میں بہنوں کا حصہ بھی بنے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved