• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گڈول کا مطالبہ

استفتاء

والد صاحب کی وراثت میں میرے حصے میں صرف دکان کی عمارت آئی تھی، اس کے علاوہ دکان کا متعلقہ مکمل لین دین (سابقہ) بھی میرے ذمے ڈالے گئے، کیونکہ میں دکان پر تیس سال تک والد کے ساتھ ہی تھا، اس کے علاوہ بہن بھائیوں کے حصوں کی ادائیگیاں بصورت نقد ماہانہ قسط کی ذمہ داری بھی مجھے ہی ملی۔ اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا کہ ساری قسطیں وقت مقررہ کے اندر ادا ہو گئیں۔

بڑے بھائی نے دکان کی متفقہ طور پر طے شدہ مالیت کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی منہ مانگی قیمت کے مطابق حصہ وصول کیا، اس طرح ان کو دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں مجھے 22 لاکھ روپے زائد دینا پڑے۔ سب نے سائن کر دیے اور فیصلہ پر مطمئن ہو گئے، مگر بڑے بھائی نے اپنے حصے کی آخری قسط (باوجود دو مرتبہ بھجوانے کے) جان بوجھ کر لینے سے انکار کر دیا،(ایک بھائی کی حیثیت سے ہمیں اس کی توقع نہیں تھی)۔ جواز یہ بتایا کہ ابھی کچھ اور حساب کتاب بھی بقایا ہیں، جس میں دکان کی گڈول بھی شامل ہے، مجھے اس میں سے بھی حصہ دو۔

دکان پر میں والد صاحب کے ساتھ تقریباً 30 سال کام کرتا رہا، کوئی بھائی دکان پر ساتھ نہ تھا، اس کے باوجود وراثت کے موقعہ پر میں نے بڑے بھائی سے یہ کہا کہ آپ دکان لے لیں اور ہمیں ہمارے حصے دے دیں، گڈول کا میری طرف سے کوئی مطالبہ نہ تھا اور نہ کسی اور حصہ داران نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر بھائی نے دکان اور حصوں کی ادائیگی کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا، اس کے گواہ وہ خود بھی ہیں اور دوسرے حصہ داران بھی۔

کسی موقع پر باتوں کے دوران بھائی نے میری کوئی بات پکڑ کر یہ دعویٰ کر دیا کہ "میں نے دکان اس سے (مجھ سے) خرید لی ہے، رقم کی ادائیگی کی میعاد کھلی ہے جب میرے پاس رقم ہوگی میں اتنی ہی رقم جو 4 سال پہلے طے ہوئی تھی ادا کر کے اس سے دکان لے لوں گا، لین دین کی کوئی ذمہ داری نہیں، صرف بلڈنگ لوں گا”۔ میں نے دانستہ طور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا نہ کوئی تحریر، نہ سائن، نہ گواہ۔ وراثت کے اصل کاغذات پر دستخط کر کے بھی انہوں نے اپنی تسلی کے لیے اور مجھے مزید پابند کرنے کے لیے ایک الگ اشٹام پیپر لکھوا کر سائن مجھ سے کروائے، اپنے بیٹے اور بیٹی کی گواہی بھی ڈلوائی، اس پیپر میں انہوں نے خود بھی ساری رقم لے کر سائن کر دینے کا اقرار کیا ہے، مگر ساری رقم لے کر بھی وہ اب انکاری ہیں۔

محترم مفتی صاحب دوبارہ دکان خریدنے کی جو شکل وہ بتا رہے ہیں کیا وہ شریعت میں ہو سکتی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ کسی دکان کی جب بھی کوئی قیمت یا پگڑی طے ہوتی ہے تو گڈول سمیت تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہی ہوتی ہے، اور بالفرض گڈول کو سامنے نہ رکھا ہو تب بھی جو قیمت طے ہو گی اس کے خلاف کرنا جائز نہیں۔ لہذا صفدر علی کا گڈول میں حصے کا مطالبہ کرنا باطل ہے۔

2۔ صفدر علی نے دکان کی خریداری کا جو دعویٰ کیا ہے اس کے ان کے پاس کیا ثبوت ہیں، اور کس کی گواہیاں ہیں؟ اگر ہیں تو پیش کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved