• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گناہ ہوجانے پر نفل کی نذر ماننے کا حکم

استفتاء

اگر کوئی شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو اور اس کے نجات کےلیے وہ سزا کے طور پر اپنے اوپر کچھ نوافل کرلے کہ جب بھی مجھ سے فلاں گناہ ہوگا تو میں اتنے نوافل پڑھوں گا تو کیا یہ نذر کے حکم میں ہوگا اور اس کا پورا کرنا لازمی  ہوگا؟اگر پورا نہیں کیا تو کفارہ لازم آئے گا یا نہیں  ؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ نے کیا نذر مانی تھی؟

جواب وضاحت: صرف نفل کی نذر مانی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں ہر دفعہ وہ گناہ کرنے سےنذر واقع ہوجائے گی، البتہ  ہر مرتبہ یہ اختیار ہوگا کہ جس  چیز کی نذر مانی  ہے (یعنی نفل) اس کو پورا کرے یا اس کی جگہ قسم کا کفارہ دے دے۔

فتاویٰ عالمگیری(2/65) میں ہے:

إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن ‌شفى ‌الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط. ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان.وإن علق بشرط لا يريد كونه كدخول الدار أو نحوه يتخير بين الكفارة وبين عين ما التزمه

الدر المختار(5/709) میں ہے:

(حلف لا يفعل كذا ‌وتركه ‌على ‌الابد) لان الفعل يقتضي مصدرا منكرا والنكرة في النفي تعم (فلو فعل) المحلوف عليه (مرة) حنث و (انحلت يمينه) وما في شرح المجمع من عدمه سهو (فلو فعله مرة أخرى لا يحنث) ألا في كلما

مسائل بہشتی زیور(179) میں ہے:

اگر ایسے کام کے ہونے  پر منت مانی جس کے ہونے کو چاہتا اور تمنا کرتا ہو کہ یہ کام ہوجائے جیسے یوں کہے کہ اگر میں اچھا ہوجاؤں تو ایسا کروں۔ اگر میرا بھائی خیریت سے آجائے تو ایسا کروں۔ اگر میرا بیٹا مقدمہ سے بری ہوجائے یا نوکر ہوجائے تو ایسا کروں تو جب وہ کام ہوجائے منت پوری کرے اور اگر ایسے کام کی منت مانی جس کو کرنا نہیں چاہتا اور اس طرح کہا کہ اگر میں تجھ سے بولوں تو  دو روزے رکھوں یا یہ کہا کہ اگر آج میں نماز نہ پڑھوں تو ایک سو روپیہ خیرات  کروں پھر اس سے بول دیا یا نماز  نہ پڑھی تو اختیار ہے، چاہے قسم  کا کفارہ دیدے اور چاہے روزے رکھے اور ایک سو روپیہ خیرات کرے کیونکہ یہ ظاہری صورت میں تو نذر ہے جبکہ معنی کے اعتبار سے قسم ہے کیونکہ غیر مطلوب کام پر قسم بھی اسی لیے کھائی جاتی ہے کہ اس کام سے بچ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved