- فتوی نمبر: 20-318
- تاریخ: 27 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
مفتی صاحب کیا جب بندے کے ذہن میں کوئی غلط خیال یا سوچ آ جائے تو اس پر بندے کا گناہ لکھا جاتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صرف غلط سوچ اور خیال پر گناہ نہیں لکھا جاتا جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
صحیح بخاری، کتاب العتق،باب الخطأوالنسیان فی العتاقۃ والطلاق ونحوہ،حدیث نمبر 2528 ہے:
"عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي ﷺ:” إن الله تجاوز لي عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل او تكلم”
(حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انہیں عمل یا زبان پر نہ لائیں)
عمدة القاری شرح صحیح البخاری (طبع: دار احیاء التراث العربی، بیروت)جلد نمبر 13 صفحہ نمبر 89پر اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
"الوسوسة حديث النفس والأفكار وقد وسوست إليه نفسه وسوسة ووسواسا بالكسر وهو
بالفتح الاسم ووسوس إذا تكلم بكلام لم يبينه حاصله أن الوسوسة تردد الشيء في النفس من غير أن تطمئن إليه وتستقر عنده۔۔۔ الخ”
صحیح بخاری،کتاب التوحید، باب قول الله تعالی:{يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ}، حدیث نمبر 7501 ہے:
"عن ابي هريرة، ان رسول الله ﷺقال:” يقول الله: إذا اراد عبدي ان يعمل سيئة فلا تكتبوها عليه حتى يعملها، فإن عملها فاكتبوها بمثلها، وإن تركها من اجلي، فاكتبوها له حسنة، وإذا اراد ان يعمل حسنة فلم يعملها، فاكتبوها له حسنة، فإن عملها فاكتبوها له بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف”
(حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو یہاں تک کہ وہ اسے کر لے۔ پس جب وہ اس کو کر لے تو پھر اسے اس کے برابر لکھو(یعنی ایک گناہ کے بدلے ایک گناہ ہی لکھو) اور اگر وہ اس برائی کو میرے خوف سے چھوڑ دے تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھو اور اگر بندہ کوئی نیکی کا ارادہ کرے اور عمل نہ کرے تو اس کے لیے ارادہ پر ایک نیکی لکھ لو اور اگر وہ اس ارادہ پر عمل کر لے تو اس کے لئے دس گنا سے سات سو گنا تک اجر لکھو)
الاشباه والنظائر لابن نجیم، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 52 پر ہے:
"ومنها حديث النفس لا يؤاخذ به ما لم تتكلم ، أو تعمل به كما في حديث مسلم ، وحاصل ما
قالوه أن الذي يقع في النفس من قصد المعصية ، أو الطاعة على خمس مراتب ،
الهاجس ، وهو ما يلقى فيها ثم جريانه فيها ، وهو الخاطر ،
ثم حديث النفس ، وهو ما يقع فيها من التردد هل يفعل ، أو لا ،
ثم الهم ، وهو ترجيح قصد الفعل ،
ثم العزم ، وهو قوة ذلك القصد ،
والجزم به ،
فالهاجس لا يؤاخذ به إجماعا ؛ لأنه ليس من فعله ، وإنما هو شيء ورد عليه لا قدرة له ولا صنع ، والخاطر والذي بعده كان قادرا على دفعه بصرف الهاجس أول وروده ، ولكنه هو وما بعده من حديث النفس مرفوعان بالحديث الصحيح ، وإذا ارتفع حديث النفس ارتفع ما قبله بالطريق الأولى وهذه الثلاث لو كانت في الحسنات لم يكتب بها أجر لعدم القصد ۔۔۔الخ”
© Copyright 2024, All Rights Reserved