• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کا حکم

استفتاء

مورخہ 10 اگست 2015 کا واقعہ ہے کہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا، تقریباً ساڑھے دس بجے میری منکوحہ حلیمہ جو کہ میلاد کی غرض سے باہر گئی ہوئی تھی، گھر واپس آئی، میری رہائش جو کہ اوپر کی منزل میں واقع ہے، میری بیگم نے مجھے نیند سے جگایا اور میرا

موبائل طلب کیا، اور موبائل لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی، جب میں دوسرے کمرے میں گیا اور بیگم سے فون کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ کو کال کی تھی، دریں اثناء میری بیگم نے بھی  الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی، بار بار مجھے کام چور اور نکھٹو ہونے کا طعنہ دینے لگی، میں چونکہ اس وقت نیم غنودگی میں تھا، اس لیے میں نے بیگم کو ایسی گفتگو سے منع کیا، اور کہا کہ مجھے نیند کے اثر سے باہر تو آنے دو۔ مگر اس نے میری بات سُنی اَن سنی کر دی، اور میرے منع کرنے کے باوجود مجھے نکھٹو، کام چور ہونے کا طعنہ دے کر اشتعال دلاتی رہی، مسلسل طعنہ زنی اور مجھے کوسنے کی وجہ سے مجھے بھی غصہ آگیا، مگر میں نے اس کے باوجود اپنی بیگم سے کہا کہ وہ خاموش ہو جائے، مگر وہ چپ نہ ہوئی، جس پر میں نے شدید غصے اور اشتعال کی حالت میں اس سے کہا۔

طلاق کے الفاظ: "میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں”۔

وضاحت: میں جب یہ بات کہہ رہا تھا، تو اس وقت ہوش و حواس میں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے شدید غصے اور اشتعال کی حالت میں طلاق دی ہے، لیکن غصے کی ایسی حالت نہ تھی کہ جس میں ہوش و حواس ہی قائم نہ رہے ہوں۔ بلکہ خود شوہر کے بقول طلاق دیتے وقت وہ ہوش و حواس میں تھا۔ لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں، اور نکاح ختم ہو گیا ہے۔ اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved