- فتوی نمبر: 9-224
- تاریخ: 29 دسمبر 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم یہ واقعہ بروز منگل 2016-12-6 کو پیش آیا۔ محترم ہم تقریباً ساڑھے 9 بجے کا ٹائم تھا، میرے میاں آفس جانے کے لیے تیار ہو چکے تھے، کہ اچانک انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ *** جو کہ ہمارا بڑا بیٹا ہے، اس سے 26 سو روپے مجھے لے کر دو، جو کہ میں نے اس کا موٹر سائیکل ٹھیک کروانے پر خرچ کیے ہیں، اس درمیان میں آپ کو وہ واقعہ بتاتی ہوں جس کی وجہ سے انہوں نے یہ پیسے مانگے تھے، واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے بیٹے *** نے اپنے ایک دوست کا TAB ٹھیک کروانے کے لیے ٹاؤن شپ دیا ہوا تھا اور میرے میاں بھی جاب کے سلسلے میں روزانہ ٹاؤن شپ جاتے ہیں تو اس نے اپنے پاپا کو 500 روپے دے کر کہا کہ پاپا آپ رات کو آتے وقت TAB لیتے آیے گا، وہ پیسے میرے میاں نے خرچ کر دیے اور *** کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ پیسے خرچ ہو گئے ہیں، جب ہوں گے میں لے آؤں گا، اس بات کے اگلے دو دن بعد *** جاب کے سلسلے میں انٹرویو دینے فیکٹری گیا ہوا تھا اور اس آدمی نے جس کا TAB تھا ، اس نے ***یعنی میرے میاں کو فون کر کے کہا کہ انکل رات کو میرا TAB لیتے آئیں، اس رات کا میرے میاں کو بہت غصہ آیا کہ *** نے جان بوجھ کر مجھے فون کروایا ہے، تو اس صبح انہوں نے مجھے کہا کہ وہ 2600 روپے دے تاکہ میں اس میں سے TAB لا سکوں، میں نے ان کو صرف اتنا جواب دیا کہ کل تو *** گھر پر نہیں تھا، بس اتنا کہنے کی دیر تھی انہوں نے مجھے الٹے ہاتھ کا تھپڑ مارا جو کہ سیدھا میرے آنکھ پر لگا اور مجھے بہت شدید درد ہوا، جس پر میں نے بھی انہیں دکھا مارا، وہ دیوار سے جا کر لگے اور میں نے کہا کہ میں نے آپ کو کہا کیا ہے، آپ ہر بات پر مجھے اسی طرح مارتے ہیں،۔۔۔ لگ کہاں رہی ہے۔ بس اس بات پر انہیں شدید غصہ لگا کہ میں نے انہیں دہکہ کیوں دیا، پھر انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ’’اُلو کی پٹھی، کنجری، گشتی وغیرہ ‘‘، میں نے بھی پہلی دفعہ کہہ دیا کہ ’’اُلو کی پٹھی میں نہیں آپ ہیں‘‘، تو اس پر انہوں نے دو دفعہ بھی دھکا دے کر گرایا کہ تم نے مجھے گالی کیوں دی، میں نے کہا کہ آپ دے سکتے ہیں، میں نہیں ۔ بس اس بات پر وہ اتنے ہائی پر ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کردوں، بس پھر انہوں نے مجھے کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘، یہ چیخ وپکار اور شور سن کر میرا بڑا بیٹا *** بھی اٹھ گیا، اور بھاگ کر ہمارے کمرے میں آیا اور اس نے پاپا سے پوچھا کیا ہوا ہے، بس اس درمیان بھی وہ گالیاں دیتے رہے، کچھ دیر اور پھر کمرے سے باہر نکل کر صحن میں جا کر دو مرتبہ وہ طلاق والے الفاظ دو بار استعمال کیے، جبکہ *** منہ پر ہاتھ رکھ کر باپ کو یہ الفاظ بولنے سے روکنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن وہ اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے اس کا ہاتھ ہٹا کر یہ طلاق والے الفاظ پورے کیے، اور پھر گھر سے نکل کر بائیک پر بیٹھ کر *** کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ گھر سے نکل گئے کہ یہ سب کے ذمہ دار تم ہو، یعنی *** کو کہہ کر چلے گئے۔ میں یہ سب باتیں حلف اٹھا کر کہتی ہوں کہ اسی طرح ہوئیں تھیں۔
شاید اس بیان کے مطابق درست ہے کہ کمرے سے نکل کر باہر دو الفاظ استعمال ہوئے۔ کیونکہ اتنے دن پرانی بات ذہن پر زور دے کر یاد آرہی ہے تھوڑی تھوڑی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ غصہ کی حالت میں طلاق دی گئی ہے، لیکن غصہ کی کیفیت ایسی نہیں کہ جس میں دی گئی طلاق معتبر نہ ہوتی ہو۔ کیونکہ مذکورہ صورت میں شوہر سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل صادر نہیں ہوا اور نہ ہی یہ ہے کہ شوہر کو علم ہی نہ ہو کہ میں نے کیا کہا ہے اور کتنی بار کہا ہے؟ لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں، اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ باقی رہی بات کہ مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو گالیاں دی ہیں اور مار پیٹ کی ہے، تو یہ باتیں خلاف عادت نہیں، کیونکہ جس پر غصہ آتا ہے اسے گالی گلوچ یا مارپیٹ کر ہی دیتے ہیں۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه.
الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لاريب أنه لا ينفذ شئ من أقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والادلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه. ملخصا من شرح الغاية الحنبلية.
لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافا لابن القيم اه. وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش، لكن يرد عليه أنا لم نعتبر أقوال المعتوه مع أنه لا يلزم فيه أن يصل إلى حالة لا يعلم فيها ما يقول ولا يريده……… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته، فما دام في حال غلبة الخلل في الاقوال والافعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها، لان هذه المعرفة والارادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل. (4/439)…………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved