• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں طلاق

استفتاء

میں نے کل شام کو گھر سے جاتے وقت اپنی بیوی سے کوئی کام کہا، جس کی وجہ سے ہمارے درمیان لڑائی شروع ہو گئی، لڑائی کے دوران اس نے مجھے گالیاں بھی دی، جو نہ برداشت کرتے ہوئے غصے میں (2) میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی (1)۔ لہذا کافی لوگ رشتے دار گھر جمع ہوئے اور سب نے فیصلہ صلح کا کیا، اور میں بھی اپنی رضا مندی سے اسے گھر واپس لے کر آنا چاہتا ہوں، جو بھی ہو سکتا ہے شریعت کے مطابق آسانی والا فیصلہ ہمارے لیے کریں۔

(1) الفاظ یہ تھے: "میں نے تمہیں طلاق دی، ٹھیک ہے، چلی جا طلاق ہے تجھے، طلاق ہے۔”

(2) میں نے غصے میں جو کچھ کہا میں حلفاً کہتا ہوں کہ مجھے پتہ تو تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، لیکن میرا کہنے کا ارادہ نہیں تھا۔ یعنی میں کہنا نہیں چاہتا تھا، مجھے بعد میں احساس ہوا، پھر میں نے معذرت کی اس کے گھر والوں سے۔

اس وقت میں نے بیوی کو دو تھپڑ بھی مارے، اس سے قبل لڑائی صرف زبانی حد تک ہوتی ہے، مارپیٹ کی نوبت نہیں آتی تھی۔

بیوی کا بیان

مجھے کل شام میرے شوہر نے کوئی کام کہا تھا، لہذا میں نے اس سے لڑائی والی باتیں شروع کر دی، تو باتوں ہی باتوں میں میں نے بھی اسے گالیاں دی، اور اس نے بھی ، اور اس طرح غصے میں انہوں نے مجھے طلاق دے دی، الفاظ یہ تھے "میں نے طلاق دی، میں نے طلاق”۔ ہم دونوں اس وقت کمرے میں اکیلے تھے، گھر والوں کو بعد میں پتہ چلا، بس میں انہیں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، جو ہوا غصے میں ہوا، ہمارے لیے کوئی آسانی والا راستہ نکل آئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر نے طلاق اگرچہ غصے کی حالت میں دی ہے، لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہ تھی کہ جس میں طلاق واقع نہ ہو۔ یعنی نہ تو غصہ ایسا تھا کہ شوہر کو پتہ ہی نہ چل رہا ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا نہیں؟ اور نہ ہی شوہر سے اس موقع پر کوئی اور خلاف عادت اقوال و افعال صادر ہوئے۔ لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں ہو گئی ہیں، اور نکاح مکمل ختم ہو گیا ہے، اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

قلت: و للحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه علی ثلاثة أقسام: أحدهما أن يحصل له مباديء الغضب بحیث لا يتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده، و هذا لا إشكال فيه. و الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. و الثالث من توسط بين المرتبتين بحیث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلة علی عدم نفوذ أقواله … لكن أشار في الغاية إلی مخالفته في الثالث حيث قال: و يقع الطلاق من غضب خلافاً لابن القيم … و هذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش … فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته. (4/ 439) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved