- فتوی نمبر: 13-286
- تاریخ: 01 مارچ 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دریں مسئلہ کہ گوگل کے حوالے سے معلوم ہوا کہ گستاخانہ خاکے شائع کر رہا ہے چنانچہ بعض احباب کی طرف سے اس کے مقاطعہ کی گذارش کی گئی ہے۔ کیا اس کا مقاطعہ ہم پر شرعاً لازم ہے؟ ازراہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جلد جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیے۔ جزاک اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورتحال میں اولاً تو مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ہالینڈ کی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے افراد کو ایسے خاکے شائع کرنے سے روکے۔ لیکن اگر مسلمان حکمرانوں اور با اثر لوگوں کے منع کرنے کے باوجود ہالینڈ کی حکومت ایسے افراد کو گستاخانہ خاکے شائع کرنے سے نہیں روکتی تو پھر مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ہالینڈ کی حکومت کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں ۔
یہی حکم گوگل کا ہے کہ اولاً تو مسلمان حکمران اور بااثر لوگ گوگل کی انتظامیہ کو ایسے خاکے شائع کرنے سے منع کریں لیکن اگر گوگل کی انتظامیہ منع کرنے کے باوجود ایسے خاکے شائع کرتی ہے تو مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں پر لازم ہے کہ وہ گوگل کا بائیکاٹ کریں ۔ اور اگر مسلمان حکمران اور بااثر لوگ بائیکاٹ کرنے میں غیر سنجیدہ ہوں تو عام مسلمانوں پر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے حکمرانوں سے شرعی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے پرزور مطالبہ کریں ۔
تنبیہ1:
مسلمان حکمرانوں اور بااثر لوگوں پر بائیکاٹ کرنا اس صورت میں لازم ہے جب غالب گمان یہ ہو کہ بائیکاٹ کافائدہ ہو گا اور بائیکاٹ کے نتیجے میں مسلمانوں کو کوئی بڑا مفسدہ (نقصان)نہ ہو گا لیکن اگرغالب گمان یہ ہو کہ بائیکاٹ کا فائدہ نہ ہو گایا بائیکاٹ کے نتیجے میں کسی بڑے مفسدے (نقصان)کے لاحق ہونے کا غالب گمان ہو تو پھر بائیکاٹ لازم نہیں ۔
تنبیہ 2:
مذکورہ صورت حال میں عام مسلمانوں پر بائیکاٹ لازم نہیں تاہم حمیت اسلامی کے پیش نظر اگر عام مسلمان بھی بائیکاٹ کریں تو یہ ان کا ایک اچھا اور قابل تعریف عمل ہوگا۔
حوالہ جات:
۱۔ موالات کفار جوبنص قرآنی حرام ہے اس سے مراد مودۃ اور قرابت ہے ۔(فتاوی خلیلہ:249)
۲۔ کفار کا مجمع مطلقا معصیت نہیں ہے بلکہ صرف جو کسی معصیت یا کفر کی غرض سے منعقد کیا جائے ایسے مجمع کی شرکت واعانت سب حرام ہے۔(امداد الفتاوی :269/4)
۳۔ میلہ پرستش گا ہ ہنود میں عموما مسلمانوں کا جانا اور خصوصا علماء کا جانا اور یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورت شدیدہ دنیاوی ہی ہو محض سیروتماشا کے لیے سخت ممنوع وقبیح ہے ۔ممانعت ایسی جگہ جانے سے ۔۔۔آیت سے ثابت ہے:
فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین
یعنی بعد نصیحت کے قوم ظالمین کے پاس مت بیٹھ یعنی کفار سے اختلاط مت کر۔۔۔۔(270/4)
۱۔ترک موالات فرض شرعی ہے اور خلافت کی ہمدردی مسلمانوں کو ہر طرح لازم وواجب ہے اس میں کوتاہی کرنا حرام اور معصیت ہے ۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند119/5)
۲۔کفارونصاری سے اختلاط وموالات رکھنا حرام ہے اور ترک موالات ضروری اور لازمی اور فرض مذہبی ہے(فتاوی دارالعلوم دیوبند86/5)
۳۔کفر اور فسق کی وجہ سے ترک موالات ہوتی ہے اور اس میں تفصیل اور درجات ہیں (فتاوی دارالعلوم دیوبند64/12)
۴۔اصل مقصد اصلاح ہے اگر تعلق وملاطفت سے اصلاح متوقع ہے تو ترک تعلق نہ کیا جائے ،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ترک تعلق سے طبیعت میں ضد پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ شروفساد ہوتا ہے کبھی ترک تعلق مفید ہوتا ہے الخ(فتاوی محمودیہ242/24)
اس کے حاشیہ میں ہے :
اراد بهذه الترجمه بيان الهجر ان الجائز لان عموم النهي مخصوص لمن لم يکن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المشروع للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليکف عنها (فتح الباري کتاب الادب ۔باب مايجوز من الهجران لمن عصي)
۵۔اگر حسن اخلاق ومروت سے متأثرہو کر کبائر کو ترک کردیں یا ان کو فہمائش کا موقعہ ہے جس سے نفع کی امید ہو تو ان سے تعلق باقی رکھ کر اصلاح کی کوشش کی جائے،اگر ترک تعلق سے اصلاح کی توقع ہو تو تعلق ترک کردیا جائے(فتاوی محمودیہ245/24)
۶۔جب تک ہر شخص اپنے افعال کفر وزندقہ سے توبہ نہ کرے اس سے ترک موالات وقطع تعلقات لازم ہے ۔(امداد الاحکام150/1)
۷۔سوال:آخر کا ربرادری نے آئندہ ایسے غلط عمل کے سد باب کے لیے حلف قطع تعلقی کرلیا ۔کیا یہ حلف درست ہے یا نہیں ؟
الجواب :یہ حلف درست ہے اس کی پابندی کی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو(خیر الفتاوی323/4)
۸۔حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے ایسے شخص کو رو کے ۔۔۔اور عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ترک موالات کریں حتی کہ وہ اپنے اس فعل بد سے باز آجائے۔(فتاوی حقانیہ:165/5)
۹۔اپنی مطلقہ غلیظہ بیوی کے ساتھ بغیر حلالہ شرعیہ کے ازدواجی تعلقات قائم رکھنا صریح زنا ہے ۔۔۔اس کے رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کا سوشل بائیکاٹ (ترک موالات)کریں ۔(فتاوی حقانیہ:165/5)
۱۰۔اس وقت خلافت کی تحریک میں شرکت اور اس کے لیے جدوجہد کرنی تمام مسلمانوں کے ذمہ لازم ہے کیونکہ دشمنان دین کے ساتھ مقابلہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے مٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔(کفایت المفتی:411/9)
۱۱۔فتاوی حقانیہ:167/5میں ترک موالات پر تفصیلی فتوی ہے:
الجواب : اپنی مطلقہ غلیظہ بیوی کے ساتھ بغیر حلالہ شرعی کے ازدواجی تعلقات قائم رکھنا صریح زنا ہے ایسا شخص مستحق سزا ہے مگر خود اسے یا اس کے والد کو مسجد سے یا نماز باچماعت سے منع نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کے رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کا سوشل بائیکاٹ (ترک موالات)کریں ۔
في الصحيح المسلم(361/2)
ونهي رسول الله ﷺ المسلمين عن کلامنا الخ۔۔واما انافکنتااشب القوم واجلدهم فکنت اخرج فاشهد الصلوة واطوف في الاسواق ولايکلمني احد واتي رسول الله ﷺوهو في مجلسه بعد الصلوة۔
۱۲۔ان ناجائز امور میں شرکت تو یقینا ناجائز ہے ۔اگر نافع ہو توترک تعلقات کر دیا جائے اگر یہ توقع نہ ہو کہ ترک تعلق سے ان لوگوں کی اصلاح ہو جائے اور وہ توبہ کریں گے یا ان سے اختلاط تعلق سے دوسروں پرعملی اخلاقی اعتقادی برا اثر پڑے گا تو ضرورترک تعلق کردیا جائے اگر یہ توقع ہو کہ ترک تعلق سے ان کی حالت اور خراب ہو جائے گی اور تعلق کے ذریعے ان کی اصلاح کی امید ہو تو پھر ترک تعلق نہ کیا جائے بلکہ مناسب طریقہ سے ان کو سمجھا کر اصلاح کی جائے۔
حسب حیثیت وموقع اصلاح وتنبیہ ضروری ہے اگر قدرت ہو اور نافع ہو نے کی توقع ہو توو عظ ونصیحت سختی یا نرمی سے جیسا کہ مناسب ہو ضروری ہے اگر قدرت نہ ہو یا نافع نہ ہو بلکہ اور زیادہ فتنہ فساد کا اندیشہ ہو تو پھر اس کی رعایت ضروری ہے ۔ (فتاوی محمودیہ520-21/18)
۱۳۔ترک معاملات واجب نہیں اور ہندوستان میں یہ مفید بھی نہیں کیونکہ ایسے دیہات ومقامات کی کثرت ہے جہاں غیر مسلم آبادی زیادہ اور مسلم آبادی کم ہے مسلمانوں کو قومی مفاد وضرر کا خیا ل رکھنا چاہیے۔(کفایت المفتی:324/9)
© Copyright 2024, All Rights Reserved