• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گیارہ اور بارہ تاریخ کو زوال سے پہلے رمی کرنا

  • فتوی نمبر: 5-306
  • تاریخ: 04 مارچ 2013

استفتاء

اگر کوئی حاجی گیارہ اور بارہ ذو الحجہ کو رمی زوال سے پہلے کر کے چلا آیا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے اور وہاں کے مفتی اور علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ رمی زوال سے پہلے کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں رمی ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر دم پڑے گا تو کتنا پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گیارہویں اور بارہویں ذو الحجہ کو رمی کا  وقت بالاتفاق زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس لیے زوال سے پہلے رمی جائز نہیں۔ اگر کسی نے زوال سے پہلے ہی رمی کی تو وہ معتبر نہ ہوگی اوررمی چھوڑنے کی وجہ سے ایک دم دینا پڑے گا۔

لو ترك رمي الجمار الثلاث في يوم واحد، أو في يومين، أو في الأيام كلها فعليه دم واحد لاتحاد الجنس. (غنیة الناسک: 279)

اگر کسی نے ایک دن تینوں جمروں یا دو دن یا تینوں دن کی رمی ترک کردی تو اس پر ایک ہی دم واجب ہوگا کیونکہ جنس متحد ہے۔ جیسا کہ حلق راس میں حکم ہے یعنی جیسا کہ اگر تمام بدن کے بال ایک مجلس میں منڈوائے تو ایک ہی دم واجب ہوگا، کیونکہ اتحاد جنس کی وجہ سے جنایت متحد ہے۔ پس اسی طرح تمام دنوں کی رمی ترک کرنے سے بھی ایک ہی دم واجب ہے۔ ( عمدة الفقہ: 4/ 545) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved