• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حادثہ کی وجہ سے معذور شخص کی طرف سے حج بدل

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب کی عمر تقریباً 85 سال ہے۔1995 میں ایک حادثہ میں کمر کے مہرےکو نقصان ہوا  زیادہ دیربیٹھ نہیں سکتے نہ سفر کرسکتے ہیں 20منٹ بھی بیٹھنا مشکل ہوتا ہے بس لیٹے رہتے ہیں اور حج بھی فرض ہے اور حج بدل کرانا چاہتے ہیں تو کیا مذکورہ صورت میں کسی کو حج بدل کروانا جائز ہے؟حج بدل کےلئے ہم دوبیٹے ہیں اور ہم دونوں پر بھی حج فرض ہے۔تو دونوں میں کوئی حج بدل کرسکتا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں آپ کےوالد کے لئےاپنی طرف سےکسی کو حج بدل کرانا جائز ہے لیکن حج بدل کےلئے کسی ایسے شخص کو بھیجا جائے جس نے پہلے اپنا فرض حج ادا کیا ہو آپ دونوں بھائیوں پر چونکہ حج فرض ہے اور ابھی تک اپنا فرض حج آپ دونوں نے نہیں کیا اس لئے آپ دونوں میں سے کسی کا باپ کی طرف سے حج بدل کرنامکروہ تحریمی ہےلیکن اگر ادا کردیا تو باپ کی طرف سے حج بدل ادا   ہوجائے گا۔

(فجاز  حج الصرورۃ)بمهملة من لم یحج .(درالمختار)

ردالمحتار:قال :والافضل احجاج الحر العالم بالمناسک الذی حج عن نفسه وذکر فی البدائع کراهة احجاج الصرورۃ،لأنه تارك فرض الحج ثم قال في الفتح بعد مااطال في الاستدلال والذي يقتضيه النظر ان حج الصرورة عن غيره إن كان بعد تحقق الوجوب عليه بملك الزاد والراحلة والصحة فهو مكروه كراهة تحريم لأنه تضيق عليه في اول سني الإمكان فيأثم بتركه.(رد المحتارج4ص25)

يجوز احجاج وكذا الصرورة ويراد به الذي لم يحج عن نفسه حجة الإسلام.(غنية الناسك ص337)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

اعلی بات تو یہی ہے کہ حج بدل کےلئے ایسے شخص کوبھیجا جائے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہولیکن اگر ایسے شخص کو بھیج دیاجائے جس نے حج فرض نہ کیا ہو اور وہ آمر کی طرف سے حج بدل کرے تب بھی حج بدل ہوجائےگا۔(4ج22ص32)

مسائل بہشتی زیور میں ہے :

ایسے شخص سے حج کرانا افضل ہے جو عالم باعمل اور مسائل سے خوب واقف ہو اور اپنا فرض حج پہلے ادا کرچکا ہولیکن اپنے حج سے فارغ ہونا ضروری          نہیں ہے۔(ص 464)۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved