• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حالت حیض میں قرآن نہ پڑھنے کا حدیث سے ثبوت

استفتاء

وقال إبراهيم لا بأس أن تقرأ الآية ولم ير ابن عباس بالقراءة للجنب بأسا وكان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه وقالت أم عطية: كنا نؤمر ‌أن ‌نخرج ‌الحيض فيكبرن بتكبيرهم ويدعون. وقال ابن عباس: أخبرني أبو سفيان أن هرقل دعا بكتاب النبي صلى الله عليه وسلم فقرأ فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم و {يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة} الآية وقال عطاء عن جابر حاضت عائشة فنسكت المناسك غير الطواف بالبيت ولا تصلي. وقال الحكم إني لأذبح وأنا جنب، وقال الله: {ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه}

ترجمہ: ابراہیم نے فرمایاکہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓجنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ام عطیہؓ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی ( عید کے دن ) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم ﷺ کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول مسلمون تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ کو ( حج میں ) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔اس لیے حکم کی مراد بھی ذبح کرنے میں اللہ کے ذکر کوجنبی ہونے کی حالت میں کرنا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حیض میں قرآن پاک پڑھ سکتے ہیں،جبکہ احناف کہتے ہیں کہ نہیں پڑھ سکتے، احناف کس حدیث سے استدلال کرتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حدیث میں حائضہ کے لئے ایک آیت پڑھنے کا ذکرہے اور وہ بھی ابراہیمؒ  کا قول ہے نہ کسی صحابی کا قول ہےاور نہ آپﷺ کا۔ احناف  حضور ﷺ کی مندرجہ ذیل حدیث کی وجہ سے جائز نہیں کہتے۔

حدثنا علي بن حجر، والحسن بن عرفة، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌تقرأ ‌الحائض، ولا الجنب شيئا من القرآن». سنن ترمذی(رقم الحدیث:130)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت  ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔

بدائع الصنائع(150/1،ط:رشیدیہ) میں ہے:

(ولنا) ما روي أن «النبي – صلى الله عليه وسلم – كان لا يحجزه شيء عن قراءة القرآن إلا الجنابة» ، وعن عبد الله بن عمر – رضي الله عنهما – عن النبي – صلى الله عليه وسلم – أنه قال «لا تقرأ الحائض، ولا الجنب شيئا من القرآن» ……… ويستوي في الكراهة الآية التامة، وما دون الآية عند عامة المشايخ ،وقال الطحاوي: لا بأس بقراءة ما دون الآية، والصحيح قول العامة لما روينا من الحديثين من غير فصل بين القليل، والكثير، ولأن المنع من القراءة لتعظيم القرآن، ومحافظةحرمته، وهذا لا يوجب الفصل بين القليل، والكثير فيكره ذلك كله لكن إذا قصد التلاوة.

فأما إذا لم يقصد بأن قال: باسم الله لافتتاح الأعمال تبركا، أو قال: الحمد لله للشكر لا بأس به لأنه من باب ذكر اسم الله تعالى، والجنب غير ممنوع عن ذلك

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved