- فتوی نمبر: 24-296
- تاریخ: 18 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > طہارت > حیض و نفاس کا بیان
استفتاء
بیاض والا قرآن پاک جس میں ایک صفحہ پر عربی کی لائن اور دوسری طرف خالی صفحہ تفسیر کےلیے ہوتا ہے کیا حالت حیض میں پاک کپڑا ہاتھ کے نیچے رکھ کر اردو میں تفسیر لکھ سکتے ہیں؟ 100% احتیاط کے ساتھ کہ نیچے ہاتھ نہ چھو پائے۔
حیض کے دنوں میں قرآن پاک پڑھانے والی کس طرح قرآن پاک پڑھا سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)حالت حیض میں تفسیر لکھنے کی گنجائش ہے اور سوال میں مذکورہ احتیاط کے ساتھ تو بدرجہ اولی گنجائش ہے۔
نوٹ:تفسیر سے مراد خالی تفسیر ہے جس میں ترجمہ نہ ہو اگر ترجمہ بھی ہو تو مذکورہ احتیاط ضروری ہے۔ اور دوسری احتیاط یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن پاک کسی تپائی وغیرہ پر رکھا ہوا ہوخود اٹھایا ہوا نہ ہو۔
(2) ایسی حالت میں قرآن ہجے کرکے پڑھائے اور رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک دو دو لفظ کے بعد سانس توڑدے اور کاٹ کاٹ کر آیت پڑھائے۔
الدرالمختار(1/350) میں ہے:
(ولا يکره النظر إليه) أى القرآن(لجنب و حائض ونفساء)……….. (و) لا تکره(کتابة قرآن و الصحيفة أو اللوح علی الأرض عندالثانی) خلافا لمحمد
وینبغى أن يقال إن وضع علي الصحيفة مايحول بينها و بين يده يؤخذ بقول الثاني و إلا فبقول الثالث قاله الحلبي
در مختار (536/1) میں ہے:
( و ) يمنع الحيض حل ( دخول مسجد)……….. ( وقراءة قرآن ) بقصده (ومسه ) ولو مكتوبا بالفارسية في الأصح( وكذا ) يمنع ( حمله ) كلوح وورق فيه آية
در مختارمع الشامی (352/1)میں ہے:
( والتفسير كمصحف)……… وقد جوز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا
قال ابن عابدين تحته قوله ( ولو قيل به ) أي بهذا التفصيل بأن يقال إن كان التفسير أكثر لا يكره وإن كان القرآن أكثر يكره والأولى إلحاق المساواة بالثاني وهذا التفصيل ربما يشير إليه ما ذكرناه عن النهر وبه يحصل التوفيق بين القولين
احسن الفتاوی(1/36) میں ہے:
سوال: جنبی کے لیے کتب حدیث و تفسیر کو چھونا یا پڑھنا یا حدیث و قرآن کا ترجمہ لکھنا یا زبانی پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جنبی کے لیے کتب حدیث و فقہ کو چھونا اور پڑھنا درست ہے مگر خلافِ اولی ہے اور کتب تفسیر میں اگر تفسیر غالب ہو تو چھونا درست ہے ورنہ نہیں۔
قرآن کو لکھنے کے جواز میں اس صورت میں اختلاف ہے جبکہ کتابت اس طور پر ہو کہ کاغذ کو ہاتھ نہ لگے عندالضرورۃ اس کی گنجائش ہے لیکن کاغذ کو ہاتھ لگانا کسی صورت میں جائز نہیں۔
حاشیہ طحطاوی(143) میں ہے:
والأصح أنه لا بأس بتعليم الحائض و الجنب القرآن إذا کان يلقن کلمة کلمة لا علي قصد قراءة القرآن کذا فى الخلاصة و البزازية أى علي قول الکرخي لأنه و إن منع مادون الأية لکن مابه يسمي قارئا لا مطلقا و لهذا قالوا بعدم کراهة التهجى بالقرآن
فتاوی ہندیہ(1/72) میں ہے:
وإذا حاضت المعلمة فينبغى لها أن تعلم الصبيان کلمة کلمة و تقطع بين الکلمتين و لا يکره لها التهجى بالقرآن کذا فى المحيط
بہشتی زیور(1/113) میں ہے:
اگر عورت لڑکیوں کو قرآن شریف پڑھاتی ہے تو ایسی حالت میں ہجے کروانا درست ہے اور رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک دو دو لفظ کے بعد سانس توڑدے اورکاٹ کاٹ کر آیت رواں کہلائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved