• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حجامہ کی اجرت

استفتاء

کیا حجامہ (پچھنے لگانے) کی اجرت لینا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلا قول

حجامہ کی اجرت لینا جائز ہے۔ یہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کا قول ہے۔ اس کے دلائل یہ ہیں:

1۔ عن أنس أن النبي ﷺ احتجم أبو طيبة و أعطاه صاعين من طعام و حكم مواليه فخففوا عنه. (احمد و بخاري)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو طیبہ نے نبی ﷺ کے حجامہ لگایا اور آپ ﷺ نے ان کو 3.5 کلو غلہ عطا فرمایا اور ان کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ ان پر روزانہ کے وظیفہ میں کچھ کمی کر دیں۔

  1. عن ابن عباس قال احتجم النبي ﷺ و أعطی الحجام أجره و لو كان سحتاً لم يعطه. (بخاري و مسلم و أحمد)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی ﷺ نے حجامہ لگوایا اور حجامہ لگانے والے کو اس کی اجرت عطا فرمائی۔ اگر اس کی اجرت حرام ہوتی تو آپ اس کو اجرت نہ دیتے۔

  1. عن علي بن رباح قال كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فاتته امرأة فقالت له أن لي غلاماً حجاماً و أن أهل العراق يزعمون أني آكل ثمن الدم. فقال لها عبد الله بن عباس لقد كذبوا إنما تأكلين خراج غلامك.

علی بن رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک عورت آئی۔ اس عورت نے ان سے کہا کہ میرا ایک غلام ہے جو حجامہ لگاتا ہے (اور اس پر اجرت لیتا ہے اور اس کمائی سے مجھے وظیفہ دیتا ہے) اہل عراق مجھے کہتے ہیں کہ (تمہاری آمدنی حلال نہیں ہے کیونکہ) تم خون کی قیمت کھاتی ہو۔ (آپ بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے؟) انہوں نے جواب دیا کہ اہل عراق نے غلط کہا۔ تم تو اپنے غلام کی (محنت کی) کمائی کھاتی ہو (کیونکہ وہ حجامہ لگا کر خون نکالتا ہے خون بیچتا نہیں ہے)۔

4۔ عن ربیعة بن أبي عبد الرحمن الرائي أن الحجامين قد كان لهم سوق علی عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه. (إعلاء السنن: 16/ 163)

ربیعہ بن ابو عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں حجامہ لگانے والوں کا ایک بازار تھا (جہاں اجرت پر حجامہ لگایا جاتا تھا)۔

دوسرا قول

جواز کے قول کے بر خلاف بعض اہل ظاہر اور بعض محدثیں کا قول یہ ہے کہ حجامہ کی اجرت ہر حال میں حرام ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث نبوی ہے "کسب الحجام خبيث (و في البعض سحت)” حجامہ کرنے والے کی کمائی خبیث ہے۔

دوسرے قول والوں کو جواب

چونکہ اوپر ذکر کی گئی حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کے زمانے میں صحابہ نے حجامہ لگانے کی اجرت کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے سامنے لوگوں نے اس کو پیشے کے طور پر اختیار کیا جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جواز کا حکم منسوخ نہیں ہوا اور نہ ہی حرمت کے معنیٰ کو ترجیح حاصل ہے۔ لہذا اب صرف یہی صورت ہے کہ دونوں طرح کی حدیثوں میں اتفاق و مطابقت کو تلاش کیا جائے۔

اصل بات یہ ہے لفظ "خبیث” کے دو معنیٰ ہیں: (i) حرام (ii) گھٹیا و طبعاً نا گوار، اور حدیث "کسب الحجام خبيث” کا معنیٰ ہے کہ حجامہ کرنے والے کی آمدنی (حلال ہے لیکن) گھٹیا اور کسی درجے میں خلاف اولیٰ (یعنی مکروہ تنزیہی) ہے۔ اس معنیٰ کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زمانے میں حجامہ کرنے والے سینگ استعمال کرتے تھے اور ہوا کو منہ سے کھینچتے تھے۔ اس میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ دم سائل یعنی بہتا ہوا خون جو نجس ہوتا حجامہ کرنے والے کے منہ میں آ جاتا تھا۔ یہ صورت ظاہر ہے گھٹیا پن اور طبعی ناگواری کی تھی۔ اب چونکہ کھینچنے کی سرے سے ضرورت نہیں رہی اس لیے خلاف اولیٰ ہونا بھی باقی نہ رہا۔

اس کی جواب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے:

إنه ﷺ نهی محيصة بن مسعود عن كسب عبده الحجام أشد النهي ثم لما بالغه في السؤال قال أعلفه ناضحك أو أطمعه رقيقك. (ابو داؤد و ترمذي)

رسول اللہ ﷺ نے محیصہ بن مسعود کو حجامہ کرنے والے اپنے غلام کی آمدنی سے سخت ممانعت کی۔ پھر جب محیصہ نے اصرار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا وہ اپنی سواری کے چارے یا اپنے غلام کے کھانے میں لگا دو۔

اگر حجامہ کی اجرت حرام ہوتی تو اس کو غلام کے کھانے میں خرچ کرنا جائز نہ ہوتا۔

  1. قال القاضي الخبيث في الأصل ما يكره لردائته و خسته و يستعمل للحرام من حيث كرهه الشارع و استرذله كما يستعمل الطيب للحلال. قال تعالی و لا تتبدلوا الخبيث بالطيب أي الحرام بالحلال. (مرقاة: 6/ 16)
  2. استدل به بعض أهل الظاهر علی حرمة كسب الحجام مطلقاً و هو قول بعض أصحاب الحديث كما نقل منهم الشوكاني في الإجارة من نيل الأوطار. و أما الأئمة الأربعة و جمهور العلمائ فقد اتفقوا علی جوازه. (تكملة فتح الملهم)
  3. أجاب عنه المجوزون بأن النهي عنه ليس لحرمته بل للدناءة و الخبث محمول علی خبث الطبعي لا الشرعي و كذا السحت، قال في القاموس السحت: الحرام أو ما خبث من المكاسب فلزم منه العار اه و يدل عليه أنه ﷺ نهی محيصة بن مسعود عن كسب عبده الحجام أشد النهي ثم لما بالغه في السؤال قال أعلفه ناضحك أو أطعمه رقيقك رواه أحمد و أبو داؤد و الترمذي و قال حسن. (إعلاء السنن: 16/ 161) فقط و الله تعالی أعلم
Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved