• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حج کروانے کو مہر مقرر کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت اور ایک مردکانکاح ہوا اور عورت نے کہاکہ”میراحق مہریہ ہے کہ مجھےحج کروادو”تو شوہرنےمنظور کرلیا تو اب نکاح کا کیا حکم ہے؟کیا نکاح درست ہوگیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح درست ہوگیا ہےاور شوہرکے ذمے درمیانے درجےکےحج کا خرچہ لازم ہوگا۔

توجیہ:حج کو مہر مقرر کرنے کی صورت میں بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ  شوہر پر درمیانے درجے کے حج کا خرچہ لازم ہوگا  اور  بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر مثل لازم ہوگا  بعض فقہاء نے یوں تطبیق دی ہے کہ  اگر شوہر مہر میں  صرف حج کو ذکر کرے  یا یوں کہے کہ ’’میں تجھے حج کراؤں گا ( خود حج پر لے جانے کو ذکر نہیں کیا )‘‘ تو درمیانے درجے کے حج کا خرچہ لازم ہوگا اور اگر یوں کہا کہ’’ میں تجھےحج پر لے جاؤں گا(خود حج پر لے جانے کو ذکر کیا)‘‘ تو مہر مثل لازم ہو گا اور چونکہ مذکورہ صورت میں حج پر لے جانے (خود حج پر لے جانے) کا ذکر نہیں کیا لہٰذا درمیانے درجے کے حج کا خرچہ لازم ہوگا۔

خزانۃ الاکمل(478/1)میں ہے:

لوتزوجهاعلى حجةأوعلى أن أحجك فلها قيمة حجة وبالطلاق قبل الدخول نصف قيمةحجةأمالوقال أن  أحج بك فلها مهرمثلها

درمختارمع الشامی (232/4)میں ہے:

(وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا

قال ابن عابدين تحت قوله ( فيما إذا لم يسم مهرا ) أي لم يسمه تسمية صحيحة أو سكت عنه نهر………… وليس منه ما لو تزوجها على عبد الغير لوجوب قيمته إذا لم يجز مالكه أو على حجة لوجوب قيمة حجة وسط لا مهر المثل والوسط بركوب الراحلة أو على عتق أخيها عنها لثبوت الملك لها في الأخ اقتضاء أو تزوجته بمثل مهر أمها وهو لا يعلمه لأنه جائز بمقداره وله الخيار إذا علم اه ملخصا باختصار

بحر الرائق(168/3)میں ہے:

وأشار المصنف إلى أنه لو تزوجها على أن يحج بها وجب مهر المثل لكن فرق في الخانية بين أن يتزوجها على أن يحج بها وبين أن يتزوجها على حجة فأوجب في الأول مهر المثل وفي الثاني قيمة حجة وسط

خیر الفتاوی(4/530) میں ہے:

سوال:**نے ہندہ کو نکاح کا پیغام دیا ہندہ بیوہ تھی ہندہ نے کہا کہ میں اس شرط پر نکاح کرتی ہوں کہ میرا مہر یہ ہے کہ آپ مجھے حج کروادیں چنانچہ نکاح ہو گیا تو کیا یہ نکاح صحیح ہے ؟ اور کیا **کےذمہ حج کرانا لازم ہے؟ مہر اس کے علاوہ اور کچھ مقرر نہیں ہواجبکہ حج کی قیمت میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے۔

جواب: اگر حج کروا دینے کی شرط پر نکاح کیا جائے اور اس حج کرانے کو مہر مقرر کیا جائے تو یہ نکاح ہو جائے گا اور خاوند کےذمہ حج کی قیمت ہوگی اور حج کی قیمت کا کم و بیش ہوتے رہنا مفسدتسمیہ نہیں۔

قال فى الدر المختار ( وكذا يجب ) مهر المثل ( فيما إذا لم يسم ) مهرا

وفى الشامية قوله ( فيما إذا لم يسم مهرا ) أي لم يسمه تسمية صحيحة أو سكت عنه نهر،(الى قوله)وليس منه ما لو تزوجها على عبد الغير لوجوب قيمته إذا لم يجز مالكه أو على حجةلوجوب قيمة حجة وسط لا مهر المثل والوسط بركوب الراحلة أو على عتق أخيها عنها لثبوت الملك لها في الأخ اقتضاء أو تزوجته بمثل مهر أمها وهو لا يعلمه لأنه جائز بمقداره وله الخيار إذا علم اه ملخصا باختصار

مسائل بہشتی زیور(73/2)میں ہے:

اگرحج کرانے کو مہر مقرر کیاتو خاوند کے ذمہ حج کاخرچہ ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved