• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حج کے ایام میں حیض جاری ہونا

  • فتوی نمبر: 13-246
  • تاریخ: 11 جنوری 2019

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

چھ اگست کو پاکستان سے مکہ کے لیے روانگی تھی، 2 اگست کو دوائی شروع کی، صبح دوپہر شام(1+1+1)۔ حج کے ایام شروع ہونے پر منٰی کے لیے روانگی ہوئی، مزدلفہ کی رات یعنی 21 اگست کو spotting شروع ہو گئی، دوائی بڑھا دی (2+2+2+2) مگر spotting / bleeding چلتی رہی پھر دوائی تبدیل کر کے دوسرے hormone شروع  کر دیے  (1+1+1)، ان سے دو دن میں کمی ہوئی، پھر دوائی کے ساتھ ایسے چلتا رہا کہ چوبیس گھنٹے میں ایک دو، یا تین بار spotting  یا clot آتا، باقی پورا دن صاف رہتا۔ اس وجہ سے طواف زیارت نہیں کیا اور مدینہ منورہ چلے گئے۔ periods کے 9دن بعد  طواف زيارت كا اراده كيا، رات كو صاف تھے، غسل کے بعد روانہ ہوئے، بتایا گیا تھا کہ عمرہ بھی کرنا ہے، طواف زیارت، سعی اور طواف وداع کرنا تھا۔ hormones کے مستقل استعمال اور وقت کی کمی کے وجہ سے scooty کے ذریعے طواف اور سعی کی تاکہ ناپاکی آنے سے پہلے مکمل ہو جائے۔ مکہ پہنچ کر وضو کیا اس وقت بھی جسم صاف تھاسارا کچھ مکمل کرنے کے بعد مکہ سے نکلنے سے پہلے urine (پیشاب) کے ساتھ ہلکا سا clot  (جما ہوا خون) آیا اور پھر رک گیا، اگلے دن periods کے دسویں دن چوبیس گھنٹوں میں ایک بار ایسا ہوا، گیارھویں دن مدینہ سے پاکستان واپسی تھی اس دن بھی صبح کے وقت urine  ساتھ clot  آیا۔ پھر پاکستان روانہ ہو گئے۔ دوائی کم کر کے تین سے ایک گولی کر دی۔ گیارھویں دن کے بعد پاکستان آکر ایام صاف گذر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں میرے ذمے کچھ آتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ اس سے پچھلے مہینے کی ماہواری کی تفصیل لکھیں کہ کونسی تاریخ سے شروع ہوئی اور کونسی تاریخ کو ختم ہوئی اور کتنے دن رہی؟

2۔ پچھلی ماہواری کے بعد کتنے دن پاکی رہی؟

3۔ پچھلی ماہواری سے پہلے کتنے دن پاکی رہی تھی؟

4۔ سوال میں طواف زیارت کے ساتھ عمرہ کرنے کا بھی ذکر ہے  اس عمرہ کی تفصیل بھی لکھیں۔

جواب وضاحت:

1۔ پچھلے مہینے تین  جولائی کو ماہواری شروع ہوئی اور 6  دن تک جاری رہی۔

2۔ اس کے بعد مزید  پیریڈ آگے نہیں چلے، تین اگست ماہواری کی تھی اور یکم اگست کو میڈیسن لی اور 21 اگست کو بلیڈنگ ہوئی۔

3۔ بائیس دن پاکی رہی۔

4۔ جب مدینہ سے واپس چلے تب عمرہ کی نیت کی، اور جاتے ہی پہلے طواف زیارت کیا پھر عمرہ پھر طواف وداع کیا۔ احرام مدینہ منورہ کے ہوٹل سے باندھا نیت مسجد میقات کے پاس جا کر کی۔

مزید وضاحت مطلوب ہے:

مدینہ منورہ سے واپسی کے فوراً  بعد یہ افعال ادا کیے ہیں؟ کیا اس وقت تھکاوٹ تھی یا نہیں؟ اور یہ کہ آپ نے طواف زیارت، عمرہ اور طواف وداع  وغیرہ افعال ادا کرنے تھے تو کیا یہ افعال بغیر تھکاوٹ کے ادا کرنا ممکن تھا یا نہیں؟

جواب وضاحت:

بات یہ ہے کہ جب ہم مدینہ سے مکہ آئے تو تھکاوٹ تھی ارکان عمرہ اور طواف زیارت مشکل سے ادا کیا کیونکہ دو دن پہلے ہی مکہ سے مدینہ گئے اور پھر ایک دن بعد آنا پڑا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عورت کی سابقہ عادت: 6 دن ماہواری اور 22 پاکی ہے۔

مذکورہ صورت میں چونکہ خون دس سے بڑھ گیا ہے لہذا اب سابقہ عادت 6 دن کے مطابق 21 اگست کی رات سے لے کر 26 اگست کے بعد والی رات تک چھ دن ماہواری کے ہیں اور باقی استحاضہ کے ہیں۔

لہذا مذکورہ صورت میں طواف زیارت کو مؤخر کرنے کی وجہ سے کچھ واجب نہیں کیونکہ اس میں تاخیر ماہواری کی وجہ سے ہے اور ماہواری کی وجہ سے تاخیر ہو تو طواف زیارت کو مؤخر کرنے کی وجہ سے کچھ واجب نہیں ہوتا۔

اور جس وقت طواف زیارت، عمرہ وغیرہ ادا کیے ہیں اگرچہ اس کے بعد بھی خون آتا رہا لیکن چونکہ اس وقت آپ شرعی لحاظ سے ماہواری کی حالت میں نہیں تھیں بلکہ آنے والا خون استحاضہ کا تھا  تو گویا کہ پاکی کی حالت میں طواف زیارت اور عمرہ وغیرہ ادا کیے ہیں ، تو اس اعتبار سے بھی کچھ واجب نہیں۔

باقی رہا تھکاوٹ کی وجہ سے سوار ہو کر طواف اور سعی تو اس کے بارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

1۔ اگر تھکاوٹ اتنی زیادہ تھی کہ عمرہ، طواف زیارت اور  طواف وداع ، سعی کی پیدل ادائیگی بہت مشکل تھی اور اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ آرام کر کے یہ اعمال پیدل ادا کر سکتے تو ایسی صورت میں ان اعمال کو سوار ہو کر  کرنے سے کوئی دم واجب نہیں۔

2۔ لیکن اگر تھکاوٹ کم تھی کہ یہ اعمال پیدل ادا کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آتی، یا اتنا وقت تھا کہ آرام کر کے یہ اعمال بآسانی پیدل ادا کر سکتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ اعمال سوار ہو کر ادا کیے تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک طواف عمرہ، طواف زیارت، طواف وداع، حج کی سعی اور عمرہ کی سعی سوار ہو کرنے کی وجہ سے (5) پانچ دم آئیں گے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک طواف اور سعی پیدل کرنا ضروری نہیں اس لیے ان کے نزدیک سوار ہو کر طواف و سعی کرنے کی وجہ سے کوئی دم نہ آئے گا۔

لہذا اگر سہولت ہو تو یہ پانچ دم ادا کر دیں اور اگر مشکل ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر عمل کر سکتے ہیں۔

البتہ طواف زیارت کرنے سے پہلے عمرے کا احرام باندھنے کی وجہ سے ایک دم  علیحدہ لازم ہے جو بہر صورت ادا کرنا ہو گا۔

غنیۃ الناسک: (273) میں ہے:

ولو ترک طواف الزیارة کله أو أکثره فهو محرم ابداً فی حق النساء حتی یطوف… فعلیه حتماً ان یعود بذٰلک الاحرام ویطوفه.

مناسک ملا علی قاری : (345) میں ہے:

ولا یجوز احرام العمرۃ علی افعال الحج.

مناسک ملا علی قاری : (296) میں ہے:

و لو أهل بها في أيام النحر و التشريق قبل الحلق وجب الرفض و القضاء و كذا بعد الحلق … و لو لم يرفض في الصورتين أجزأه و عليه دم الجمع.

فتاویٰ شامی : (710/3)  میں ہے:

تنبيه: قال في شرح اللباب بعد تقرير حكم المسألة ومنه يعلم مسألة كثيرة الوقوع لأهل مكة وغيرهم أنهم قد يعتمرون قبل أن يسعوا لحجهم اه أي فيلزمهم دم الرفض أو دم الجمع لكن مقتضى تقييدهم الإحرام بالعمرة يوم النحر أو أيام التشريق أنه لو كان بعد هذه الأيام لا يلزم الدم لكن يخالفه ما علمته من تعليل الهداية فالسعي وإن جاز تأخره عن أيام النحر والتشريق لكنه إذا أحرم بالعمرة قبله يصير جامعا بينها وبين أعمال الحج .

 ويظهر لي أن العلة في الكراهة ولزوم الرفض هي الجمع أو وقوع الإحرام في هذه الأيام فأيهما وجد كفى لكن لما كانت هذه الأيام هي أيام أداء بقية أعمال الحج على الوجه الأكمل قيدوا بها كما يشير إليه ما قدمناه عن الهداية وكذا قوله فيها معللا للزوم الرفض لأنه قد أدى ركن الحج فيصير بانيا أفعال الحج من كل وجه وقد كرهت العمرة في هذه الأيام أيضا فلهذا يلزمه رفضها اه

غنیۃ الناسک: (ص: 114) میں ہے:

فصل في واجبات الطواف: ….. الخامس: المشي فيه للقادر، فلو طاف للزيارة (لباب) أو العمرة (بحر) راكباً، أو محمولاً أو زحفاً بلا عذر فعليه الإعادة أو الدم، و إن كان بعذر لا شيء عليه.

غنیۃ الناسک: (ص:133) میں ہے:

فصل في واجبات السعي: و هي ستة…. الثالث: المشي فيه لمن لا عذر له، فإن سعى راكباً أو زحفاً بغير عذر فعليه الدم.

كتاب ’’الأم ‘‘ (2/ 174) میں ہے:

الطواف راكبا:  أخبرنا سعيد بن سالم عن بن جريج قال أخبرني أبو الزبير المكي عن جابر بن عبد

الله الأنصاري أنه سمعه يقول طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع على راحلته بالبيت وبين الصفا والمروة ليراه الناس وأشرف لهم لأن الناس غشوه ……………………….  أخبرنا سفيان بن عيينة عن الأحوص بن حكيم قال رأيت أنس بن مالك يطوف بين الصفا والمروة راكبا على حمار وطاف النبي صلى الله عليه وسلم بالبيت والصفا والمروة راكبا من غير مرض ولكنه أحب أن يشرف للناس ليسألوه وليس أحد في هذا الموضع من الناس وأكثر ما طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت والصفا والمروة لنسكه ماشيا، فأحب إلى أن يطوف الرجل بالبيت والصفا والمروة ماشيا إلا من علة وإن طاف راكبا من غير علة فلا إعادة عليه ولا فدية۔۔فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved