- فتوی نمبر: 8-337
- تاریخ: 06 مارچ 2016
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
گذشتہ سال ایک بزرگ 12 ذو الحجہ کو رمی کرنے لگے، اچانک طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ انہوں نے رمی کے لیے اپنی کنکریاں ایک لڑکے کو دیں جو بالغ تو تھا، لیکن اس نے حج کا احرام نہیں باندھا تھا۔ اس نے اس سال حج نہیں کیا۔ تو اس لڑکے نے ان معذور بزرگ کی طرف سے رمی کی تو کیا ان بزرگ کی رمی ہو گئی یا کہ دم پڑ گیا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
12 ذو الحجہ کی رمی کے لیے خود اصل کے لیے احرام کی حالت میں ہونا ضروری نہیں تو نائب کے لیے احرام کی شرط بدرجہ اولیٰ غیر ضروری ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں ان معذور بزرگ کی رمی ہو گئی۔
مناسک حج کے فضائل و احکام از مفتی رضوان صاحب میں ہے (445- 446):
’’جب کوئی خود اپنی رمی کرنے سے معذور ہو اور وہ کسی دوسرے کو اپنی رمی کا نائب بنائے، تو ہر عاقل بالغ مسلمان کو نائب بنانا درست ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔۔۔۔ البتہ معذور شخص کی طرف سے رمی کرنے کے لیے۔ کیا ایسے شخص کو نائب بنانا درست ہے، جو اس سال حج نہ کر رہا ہوں؟
فقہاء کرام سے اس کی تصریح نہیں مل سکی، احتیاط تو اسی میں ہے کہ رمی ایسے شخص سے کرائی جائےجو اس سال حج کر رہا ہو۔ لیکن اگر کسی نے دوسرے مسلمان عاقل، بالغ شخص سے رمی کرائی تو قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمی ادا ہو جائے گی، اگرچہ ایسا کرنا مناسب نہیں۔‘‘
حاشیہ (446) میں لکھا ہے:
’’کیونکہ مسلمان عاقل بالغ میں نیابت کی اہلیت پائی جاتی ہے اور فقہاء کرام نے معذور کی طرف سے مطلق رمی میں نیابت کا جواز بیان فرمایا ہے، جس میں تینوں دن کی رمی داخل ہے، اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ دوسرے کی طرف سے نیابتاً رمی کرنے والا شخص اپنی رمی اور حج کے دوسرے اعمال سے فارغ ہو چکا ہو اور احرام سے نکل چکا ہو۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ احرام سے نکلنے کے وقت اس کا حکم عام شخص کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved