- فتوی نمبر: 28-176
- تاریخ: 09 جنوری 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
کیا کوئی لڑکی اپنے حق مہر میں عمرہ یا حج بطور حق مہر لکھواسکتی ہےیا نہیں ؟ایک عالم نے بتایا کہ جو چیز وجود رکھتی ہو اسے حق مہر لکھوانا چاہیے کم سے کم دس درہم جیساکہ کچھ احادیث سے ثابت ہے اورجن روایات میں حضور ﷺ کے نکاح میں آزادی کو حق مہر قرار دے کر نکاح کا ذکر ہے وہ صرف حضورﷺ کیلئے خاص ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حج یا عمرہ کو حق مہر مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں:
(1)حج یا عمرہ کرانے کا ذکر کیا جائے خود لے کر جانے کا ذکر نہ ہو یہ صورت ٹھیک ہے اور اس صورت میں حج یا عمرے کا متوسط درجے کا خرچہ شوہر پر لازم ہوگا۔
(2)شوہر کے خود حج یا عمرے پر لے جانے کو حق مہر مقرر کیا جائے ،یہ صورت درست نہیں کیونکہ اس صورت میں شوہر کا فعل (حج یا عمرے پر لے کر جانا )مال نہیں لہذا اس صور ت میں مہر مثل لازم ہوگا۔
توجیہ:حج کو مہر مقرر کرنے کی صورت میں بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر پر درمیانے درجے کے حج کا خرچہ لازم ہوگا اور بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر مثل لازم ہوگا بعض فقہاء نے یوں تطبیق دی ہے کہ اگر شوہر مہر میں صرف حج کو ذکر کرے یا یوں کہے کہ ’’میں تجھے حج کراؤں گا(خود حج پر لے جانے کو ذکر نہ کرے)‘‘تو درمیانے درجے کے حج کا خرچہ لازم ہوگا اور اگر یوں کہے کہ ’’میں تجھے حج پر لے جاؤں گا(خود حج پر لے جانے کو ذکر کرے) تو مہر مثل لازم ہوگا۔
خزانۃ الاکمل(1/478)میں ہے:
لو تزوجها على حجة أو على أن أحجك فلها قيمة حجة و بالطلاق قبل الدخول نصف قيمة حجة أما لوقال أن أحج بك فلها مهر مثلها
رد المختار مع درمحتار(4/232)میں ہے:
(وکذا یجب)مهر المثل (فيما اذا لم يسم)مهرا
قوله:(فيما اذا لم يسم مهرا)أي:لم يسم تسمية صحيحة أو سكت عنه نهر،فدخل فيه ما لو سمى غير مال كخمر و نحوه …قال في البحر: ومن صور ذلك ما إذا تزوجها على ألف على أن ترد إليه ألفا، أو تزوجها على عبدها أو قالت زوجتك نفسي بخمسين دينارا وأبرأتك منها فقبل، أو تزوجها على حكمها أو حكمه أو حكم رجل آخر، أو على ما في بطن جاريته أو أغنامه، أو على أن يهب لأبيها ألف درهم، أو على تأخير الدين عنها سنة والتأخير باطل، أو على إبراء فلان من الدين، أو على عتق أخيها أو طلاق ضرتها؛ وليس منه ما لو تزوجها على عبد الغير لوجوب قيمته إذا لم يجز مالكه، أو على حجة لوجوب قيمة حجة وسط، لا مهر المثل والوسط بركوب الراحلة، أو على عتق أخيها عنها لثبوت الملك لها في الأخ اقتضاء، أو تزوجته بمثل مهر أمها وهو لا يعلمه لأنه بمقداره، وله الخيار إذا علم اهـ
بحرالرائق(3/168)میں ہے:
وأشار المصنف إلى أنه لو تزوجها على أن يحج بها وجب مهر المثل لكن فرق في الخانية بين أن يتزوجها على أن يحج بها وبين أن يتزوجها على حجة فأوجب في الأول مهر المثل وفي الثاني قيمة حجة وسط
خیر الفتاوی(4/531)میں ہے:
حج کرانا بھی نکاح میں مہر بن سکتا ہے
س:***نے ہندہ کو نکاح کا پیغام دیا ،ہندہ بیوہ تھی ،ہندہ نے کہا میں اس شرط پر نکاح کرتی ہوں کہ میرا مہر یہ ہے کہ آپ مجھے حج کروادیں ،چنانچہ نکاح ہوگیا تو کیا یہ نکاح صحیح ہے اور کیا ***کے ذمہ حج کروانا لازم ہے،مہر اس کے علاوہ اور کچھ مقرر نہیں ہواجبکہ حج کی قیمت میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے۔
الجواب:اگر حج کروادینے کی شرط پر نکاح کیا جائےاور اس حج کر انے کو مہر مقرر کیا جائے تو یہ نکاح ہوجائے گا اور خاوند کے ذمہ حج کی قیمت ہوگی ا ور حج کی قیمت کا کم و پیش ہوتے رہنا مفسد تسمیہ نہیں۔
مسائل بہشتی زیور(2/73)میں ہے:
اگر حج کرانے کو مہر مقرر کیا تو خاوند کے ذمہ حج کا خرچہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved