- فتوی نمبر: 31-269
- تاریخ: 31 دسمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
1۔حج پر اپنے کفن لیجانے اور واپسی پر زم زم میں بھگو کر لانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2۔کیا اس سے میت کا اجرو ثواب بڑھتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔حج پر کفن کا کپڑا لے جانے اور واپسی پر اسے زمزم کے پانی میں بھگو کر لانے کی شرعی حیثیت صرف اباحت (جواز) کی ہے۔
2۔اس سے میت کا اجر وثواب تو نہیں بڑھتا البتہ ایک برکت کی چیز ضرور ہے۔
تفسیر روح البيان (3/ 259) ميں ہے:
«ولذا قال فى الاسرار المحمدية لو وضع شعر رسول الله او عصاه او سوطه على قبر عاص لنجا ذلك العاصي ببركات تلك الذخيرة من العذاب ………… ومن هذا القبيل ماء زمزم والكفن المبلول به وبطانة أستار الكعبة والتكفن بها»
کفایت المفتی (4/34) میں ہے:
کفن مبلول بمائے زمزم میں میرے نزدیک جواز کی جہت راحج ہے اور اس کو استنجا بمائے زمزم پر قیاس نہ کرنا چاہیے کیونکہ استنجا میں عین زمزم کی تعریض للنجاست ہے اور ثوب مبلول بمائے زمزم میں مائے زمزم بصورتہ موجود نہیں ہے خشک ہوچکا ہے صرف کپڑے کا اس کے ساتھ گزشتہ زمانے میں تلبس ہوا ہے اور اس قسم کے تلبس کو عدم جواز تکفن میں دخل نہیں آنحضرت ﷺکا عبداﷲ بن ابی کو قمیص مبارک پہنانا ہی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ صاحبزادی زینب کو اپنا تہ بند عطا فرمانا اور اشعر بہا ایاہ کی ہدایت فرمانا اور ایک صحابی کا حضور اکرمﷺسے تہبند مانگ لینا اور صحابہ کرامؓ کی طرف سے اظہار ناراضگی پر اس کا یہ عذر ما سالته لا لبسها ولکن لتکون کفنی اور راوی کا یہ بیان فکانت کفنه بخاری میں موجود ہے اس لئے تکفین بثوب مبلول بمائے زمزم تو تکفین بقمیص رسول اﷲ ﷺ وازارہ وحقوه سے اہون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved