- فتوی نمبر: 34-14
- تاریخ: 28 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > آن لائن کمائی > مروجہ آن لائن کمپنیاں
استفتاء
اس وقت پاکستان میں قرضے فراہم کرنے کی کئی ایپلی کیشنز موجود ہیں جن کے ذریعے صارفین مو با ئل فون کے ذریعے چھوٹے قرضے ( ما ئیکر و فائنانس) حاصل کر سکتے ہیں اور صارفین کو یہ قرضہ محدود مدت میں واپس کر نا پڑتاہے۔ ان ہی میں سے ایک ایپلی کیشن “حکیم” ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی کو 10,000 روپے قرض درکار ہوں تو وہ اس ایپلی کیشن کے ذریعے قرض کی درخواست دے گا۔ یہ ایپلی کیشن صارف کے کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد کچھ گھنٹوں کے اندر 10,000 روپے فراہم کر دے گی۔ اگر صارف نے قرضہ لیتے وقت ایک ماہ میں یہ رقم لوٹانے کا کہا ہے تو ایک ماہ بعد صارف کو 12,250 روپے واپس کرنے ہوں گے (جبکہ 15 دن میں لوٹانے کی صورت 11,125روپے لوٹانا ہوں گے)۔ 12,250 روپے جو صارف نے لوٹانے ہوں گے اس میں حکیم ایپلی کیشن کا مقرر کردہ اے پی آر (Annual percentage rate) جوکہ 273.75 فیصد ہے شامل ہے، جبکہ یہ کوئی فیس چارج نہیں کرتے یعنی فیس صفر روپے ہے ۔
حکیم ایپلی کیشن کے کام کا طریقہ کار
حکیم ایپلی کیشن کی ویب سائٹ پر مہیا کی گئی معلومات کے مطابق اس میں کوئی پروسیسنگ فیس شامل نہیں ہے، اور نفع کی شرح روزانہ %0.75 ہے جو دس ہزار روپے کے حساب سے ماہانہ 2,250 روپے بنتے ہیں۔ تاخیر سے ادائیگی کا خیراتی عطیہ 75 روپے ہے (مثال کے طور پر ایک دن کی تاخیر کے لیے 75 روپے کا خیراتی عطیہ ادا کر ناہو گا، جو اصل رقم اور نفع میں شامل ہو گا اور یہ رقم چیریٹی صدقہ و فلاحی کاموں میں جائے گی )۔
ان کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ یہ کمپنی سود سے پاک مالیاتی خدمات فراہم کرتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سود نہیں بلکہ تجارت ہے۔ اس کا طریقہ کار انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ جب صارف کو 10,000 روپے دیے جاتے ہیں، تو بنیادی طور پر سب سے پہلے “WFS” نامی پارٹنر ایک کموڈیٹی (اجناس )بیچنے والے سے دس ہزار روپے کی کموڈیٹی خریدتے ہیں ، کموڈیٹی بیچنے والا اس کموڈٹی کی ملکیت WFS کو منتقل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد WFS یہ کموڈیٹی (سامان) صارف کو 12,250 روپے کی مؤخر ادائیگی (Deferred Payment) کی بنیاد پر فروخت کرتا ہے، جس میں قیمت مع نفع شامل ہے۔ اس کے بعد صارف یہ کموڈیٹی کیش قیمت مارکیٹ قیمت پر (دس ہزار روپے) میں کموڈیٹی خرید نے والے کو بیچ دیتا ہے۔ کموڈیٹی خرید نے والا کیش پیمنٹ دس ہزار روپے صارف کو دے دیتا ہے۔ اس طریقے سے صارف کو دس ہزار روپے کیش قرضہ مل جاتا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ صارف کو یہ سارا عمل نظر نہیں آرہا ہوتا، وہ تو بس مو بائل اپیلی کیشن پر دس ہزار روپے قرضہ کی درخواست دیتا ہے اور یہ سارا عمل پسِ پردہ ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر جب صارف کو قرضہ لوٹانا ہوتا ہے تو وہ 12,250 روپے WFS کو مستقبل کی تاریخ پر مؤخر ادائیگی کی مد میں ادا کرے گا ۔ اس پر یہ پورا عمل انجام پاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ تمام عمل ایپلی کیشن خود انجام دیتی ہے، اور صارف 10,000 روپے کی درخواست دے گا جو اسے مل جائیں گے اور ایک ماہ بعد 12250 روپے واپس کرے گا۔ اس اپیلی کیشن کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) نے منظور کیا ہے اور ان کے پاس شرعیہ ایڈوائزر بھی ہیں۔
حکیم کی ویب سائٹ پر ایک فتوی موجود ہے جس میں کموڈیٹی سے مراد ان کے ہاں ایئر ٹائم Airtime ہے۔
“Hakeem purchases specific airtime from different telecommunication service providers (TSPs) and sells it to its customers in need of liquidity on deferred sale basis. Thereafter, the customers can choose to utilize the airtime by transferring it to their mobile sim or they may appoint an agent to sell the airtime to the agent’s customers/retailers and provide the customers with cash upon successful sale. In order to encourage financial discipline and repayment of the sale price on time, as a deterrent against delay in any payment, Hakeem collects charity as per the customers’ own undertaking, and directs the same for charitable purposes on behalf of the customer”
حکیم مختلف ٹیلی کمیونیکیشن سروس پرووائیڈرز سے مخصوص ایئر ٹائم خریدتا ہے اور اسے اپنے ان صارفین کو فروخت کرتا ہے ، اور یہ فروخت مؤخر ادا ئیگی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کے بعد صارفین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایئر ٹائم کو اپنے موبائل سم میں منتقل کریں یا ایک ایجنٹ مقرر کریں جو ایئر ٹائم کو اپنی کسٹمرز/ ریٹیلرز کو فروخت کرے اور فروخت کی کامیابی پر صارفین کو نقدر قم فراہم کرے۔ مالی نظم و ضبط کو فروغ دینے اور بر وقت قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کو روکنے کے لئے، حکیم صارفین سے اپنی مرضی کے مطابق چیریٹی جمع کرتا ہے اور اس کو صارفین کی جانب سے خیراتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
ایئر ٹائم کا مفہوم
ائیر ٹائم کی تعریف یہ ہے کہ جتنی دیر مو بائل فون پر صارف کال، میسج یا انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے اس کو ائیر ٹائم کہا جاتا ہے۔ ایئر ٹائم (Airtime) پیدا نہیں ہوتا، خرچ نہیں ہوتا بلکہ انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے یا مو بائل فون کمپنیاں صرف اس بات کا حساب رکھتی ہیں کہ کس نے کتنا انٹر نیٹ ایئر ٹائم استعمال کیا، یا کال کی یا میسج کیے اور پھر اسی کے حساب سے اپنے اخراجات اور منافع کو ذہن میں رکھتے ہوئے صارفین سے مختلف پیکجز کی صورت میں فیس وصول کرتے ہیں۔
سوالات: سوال نمبر 1: کیا اس طریقے سے قرض لینا جائز ہے ؟ اگر کسی نے 10,000 روپے کا قرض لیا اور اسے ایک ماہ بعد 12,250 روپے کی صورت میں واپس کر رہا ہے تو کیا یہ جائز ہو گا یا نہیں ؟
سوال نمبر ۲: اس ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اگر ایک دن میں دس ہزار افراد 10,000 روپے قرضے کی درخواست کرتے ہیں الگ الگ، اور انہیں یہ قرض چند گھنٹوں میں مل جاتا ہے تو کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے ؟ یعنی اگر ہم اصلی کموڈیٹی کی بات کریں جیسے گیہوں ، چاول وغیرہ توان کو رکھنا، ان کو بیچنا مشکل کام ہو گا۔ اس کمپنی نے بجائے ان حقیقی کموڈیٹی کے ائیر ٹائم کو بطور کموڈیٹی اختیار کیا ہے ۔ جب یہ کمپنی 10,000 روپے کی کموڈیٹی (ایئر ٹائم ) خرید رہی ہو اور پھر اسے 12,250 روپے میں صارفین کو بیچ رہی ہو، کیونکہ یہ قرض چند گھنٹوں میں فراہم کرتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ صارفین کی تعداد بڑھتی چلے جائے گی تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ شرعی طور پر مناسب ہے؟
سوال نمبر ۳: جب یہ طریقہ کار اختیار کیا جارہاہے کہ ایک کمپنی ہے جو قرضہ دے رہی ہے ، اور بڑے پیمانے پر دے رہی ہے اور عنوان بھی قرضے کا ہی ہے، اور لوگ قرضہ ہی لے رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے طریقہ کار فائنانس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فائنانس کا طریقہ کار ہے تو اتنے بڑے پیمانے پر اس کو قرضہ کے عنوان سے کیوں کیا جارہا ہے ؟ یعنی صارف کا مقصد قرضہ لینا ہے تو قرض تو شریعت میں بطور احسان کے لیا جاتا ہے اور اس پر منافع لینا سود ہے۔ قرض دینے والا اگر مقروض کو کوئی رعایت دیتا ہے قرضہ واپس لینے میں تو اس کو آخرت میں ثواب ملے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر قرضہ فراہم کیا جارہا ہے اور اس کے پیچھے فائنانس کو استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا ایسا کر ناشر عی طور پر مناسب ہے ؟ یعنی اگر کوئی کمپنی یہ کہے کہ ہمارے پاس انویسٹ کریں اور ہم آپ کو منافع دیں گے، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہاں تو صارف کو قرضہ چاہیے اور وہ قرضہ لے بھی رہا ہے ، اور واپسی میں زیادہ پیسے دے رہا ہے۔ پھر اس عمل کو تمویل یا فائنانسنگ کا نام کیوں دیا جار ہا ہے ؟
سوال نمبر ۴: یہاں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمپنی قرض دینے کے نام پر فائنانسنگ کا عمل انجام دے رہی ہے۔ اگر یہ کمپنی انویسٹمنٹ یعنی سرمایہ کاری کے طور پر منافع دینے کا اعلان کرے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہاں تو صارف قرض لے رہا ہے اور اسے زیادہ رقم واپس کرنی ہوتی ہے۔ مفتی صاحب ، کیا اس طرح کا عمل جائز ہے ؟ کیا ایسا کرنادرست ہے ؟
سوال نمبر ۵: اور کیا اس طرح بڑے پیمانے پر کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ قرضے کے نام پر فائنانسنگ کر رہی ہوں ، مناسب عمل ہے؟ پوری معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پورے پاکستان میں یہ جو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) لائسنس جاری کر رہا ہے، یہ عملی طور پر رائج ہو چکا ہے اور لوگ قرضے لے رہے ہیں۔ کیا یہ اصولی طور پر صحیح ہے ؟
سوال نمبر ۶ : جب ہم روز مرہ کی زندگی میں کسی سے قرضہ لیتے ہیں تو وہ بطور احسان ہمیں قرضہ دیتا ہے اور ہم اس کو کچھ عرصے بعد لوٹانے کا کہتے ہیں اور اس میں شرعی طور پر وہ ہم سے کوئی چیز گردی بھی رکھ سکتا ہے۔ ہم جب اس کو قرضہ لوٹائیں گے تو وہ مالیت وہی ہونی چاہیے جو اس نے قرضہ دیتے وقت دی تھی ورنہ اضافہ سود کہلائے گا۔ اگر کسی نے روپے میں قرضہ لیا ہے اور چونکہ روپے کی گراوٹ کی وجہ سے اگر وہ یہ کہے کہ تین سال پہلے تم نے دولاکھ روپے قرضہ لیا تھا اب چونکہ روپے کی قدر میں گراوٹ آئی ہے اور ہم اتنی مالیت کے اثاثے اس سے نہیں خرید سکتے لہٰذا ز یادہ پیسے دیے جائیں تو اس کو ہمیشہ سے سود کہا جاتا رہا ہے۔ اب کسی نے قدر کو محفوظ رکھنا ہے تو وہ سونا بطور قرضہ دے دے ، اس سے اگر کچھ سال بعد بھی قرضہ واپس ادا کیا جائے گا تو اس کی قدر بر قرار رہے گی۔ تو کیا اب ہمیں قرضے کے نظریہ کو سرے سے شریعت میں سے ختم کر دینا چاہیے نعوذ باللہ اور اس کے بجائے جب کوئی شخص قرضہ فراہم کرے تو اس حکیم کمپنی کا حیلہ اختیار کرلے۔ تو کیا ایسا کرنا جائز ہو گا؟
سوال نمر۷: کیا ائیر ٹائم کو بطور کموڈیٹی خرید وفروخت کرنا جائز ہے اور اس کمپنی کا اسے بطور کموڈیٹی قرضہ کے حیلہ کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1,7) مذکورہ طریقہ سے قرضہ لینا دینا جائز نہیں ہے ۔
توجیہ :مذکورہ صورت میں گاہک کو اکثر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے نام پر آگے کیا معاملہ ہو رہا ہے گاہک کا اصل مقصد قرض لینا ہی ہوتا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ ایپ پر آتا ہے اور عملا بھی اسے پیسے ہی ملتے ہیں اس لیے “الامور بمقاصدھا ” کے ضابطے کے تحت دیکھا جائے تو عملا قرض دے کر زیادہ وصول کیا جاتا ہے جو کہ سود کی شکل ہے ۔
مجلۃ الاحکام (مادہ:02) میں ہے:
الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِهَا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved