• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حجام کی کمائی کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  میری نائی والی دکان ہے اور میرے ساتھ میرا بھائی بھی کام کرتا ہے اور میرے والد کی علیحدہ دکان ہے  اور میرے اور دو بھائی چھوٹے ہیں ایک کاریگر ہوگیا ہے اور دوسرا کام سیکھ رہا ہے غرض ہمارا پورا گھرانہ  اس پیشے کے ساتھ وابستہ ہے۔

ہمارے پاس مسلمان اور غیر مسلم آتے ہیں اور بال کٹواتے ہیں اور ڈاڑھی بھی کٹواتے ہیں آیا اس عمل  کی جو ہمیں اجرت ملتی ہے یہ جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سر اور مونچھوں کے بال کاٹنے کی اجرت لینا جائز ہےالبتہ داڑھی کاٹنے میں یہ تفصیل ہے کہ غیر مسلم کی داڑھی کاٹنے کی اجرت لے سکتے  ہیں  ،مسلمان کی داڑھی کاٹنے کی اجرت نہیں لے سکتے، البتہ مسلمان کی داڑھی کاٹنے میں جو بلیڈ اور کریم وغیرہ استعمال ہوئی اس کے پیسے لے سکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی داڑھی کاٹنے کا گناہ بہر حال ہو گا اس لیے کوشش کریں کہ مسلمان کی داڑھی کاٹنے سے معذرت کر لیا کریں اور معذرت کرنا مشکل ہو تو کام تبدیل کر لیں اور جب تک کوئی اور کام نہ ملے اس وقت تک دو کام کرتے رہیں (1) داڑھی کاٹنے کے گناہ پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرتے رہیں (2) داڑھی کاٹنے میں جو بلیڈ وغیرہ استعمال ہوا ہے اس کی قیمت سے زائد قیمت کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیا کریں۔

شرح النووي على مسلم (14/100)میں ہے:

(أخبرنى عمر بن نافع عن أبيه عن بن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ‌القزع قلت لنافع وما القزع قال يحلق بعض رأس الصبي ويترك بعض) وفي رواية أن هذا التفسير من كلام عبيد الله القزع بفتح القاف والزاي وهذا الذي فسره به نافع أو عبيد الله هو الأصح وهو أن القزع حلق بعض الرأس مطلقا ومنهم من قال هو حلق مواضع متفرقة منه والصحيح الأول لأنه تفسير الراوي وهو غير مخالف للظاهر فوجب العمل به وأجمع العلماء على كراهة القزع إذا كان في مواضع متفرقة إلا أن يكون لمداواة ونحوها وهي كراهة تنزيه

شامی (9/672) میں ہے:

ويكره ‌القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب

بدائع الصنائع(5/562،ط:دار الکتب العلمیۃ)میں ہے:

وعلى هذا يخرج ‌الاستئجار ‌على ‌المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو

تاتارخانیہ (15/130) میں ہے:

في نوادر هشام عن محمد: رجل إستأجر رجلا ليصور له صورا أو تماثيل الرجال في بيت أو فسطاط فإنى أكره ذلك وأجعل له الأجر، قال هشام: تأويله إذا كان الإصباغ من قبل الأجير

نور الانوار (ص:59) میں ہے:

(والكفار مخاطبون بالامر بالايمان وبالمشروع من العقوبات والمعاملات وبالشرائع في حكم المؤاخذة في الآخرة واما في وجوب الاداء في احكام الدنيا فكذلك عند البعض) يعني انهم مخاطبون باداء العبادات في الدنيا أيضا عند البعض من مشايخ العراق واكثر اصحاب الشافعى وهذا مغلطة عظيمة للقوم (والصحيح انهم لا يخاطبون باداء ما يحتمل السقوط من العبادات) أى المذهب الصحيح لنا ان الكفار لايخاطبون باداء العبادات التى تحتمل السقوط مثل الصلوة والصوم فانهما يسقطان عن اهل الاسلام بالحيض والنفاس ونحوهما

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved