• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حلالہ کے نکاح میں حلالہ کرنے والے میاں اور بیوی کا دخول میں اختلاف ہو تو کس کا قول معتبر ہوگا؟

استفتاء

میرے شوہر نے گھریلو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے غصے میں آکر مجھے 3 دفعہ طلاق دے دی۔  کچھ وقت گزرنے کے بعد انکو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اسی وقت مجھ سے معافی مانگی کیونکہ ہمارا ایک  بیٹا بھی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اب حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا اور اس بات کا مجھے بھی علم تھا کہ 3 طلاق کے  بعد اب رجوع نہیں ہوسکتا اور اپنے بیٹے کی خاطر میں حلالہ کے لئے تیار ہو گئی کہ میرے بچے کو اسکے باپ کا سایہ مل جائے گا۔

عدت کا عرصہ میں نے اپنے شوہر کے گھر اس طرح گزارا کہ وہ الگ اور میں الگ سویا کرتے تھے اور ہم نے کسی کو بھی نہیں بتایا۔ اس کے بعد انہوں نے میرا نکاح اپنے کسی دوست سے کروایا کہ ہمبستری کے بعد وہ مجھے طلاق دے گا اور اس کام کے اس آدمی نے میرے شوہر سے 30 ہزار بھی لیے۔

بات شرمندگی والی ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گی کہ نکاح کے بعد میرا جو نیا شوہر تھا اس نے ہمبستری ایسے کی کہ میرے کپڑے نہیں اتارے، ایسے ہی تھوڑی سی شلوار نیچے کی اور پیدائش والی جگہ کے اندر دخول کر دیا۔ میرا چہرہ دیوار کی طرف تھا اور وہ میرے پیچھے کھڑے تھے۔

مجھے خود بھی محسوس ہوا کہ دخول ہوگیا ہے اس کے بعد جب وہ فارغ ہونے لگے  تو پیچھے ہٹ گئے اور پانی باہر نکال دیا اور مجھے میرے منہ پے تین  دفعہ طلاق دے کر کمرے سے باہر چلے گئے اور باہر جاکر دو گواہوں کے سامنے بتایا کہ ہمبستری بھی کرلی اور طلاق بھی دے دی ہے اور ادھر سے چلے گئے۔ میرے سابقہ شوہر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے یہی بتایا کے دخول کیا اور طلاق دے دی۔ میں اب عدت گزار رہی ہوں۔

آج 5 دن بعد انہوں نے کال کی اور اب وہ میرے شوہر کو بول رہے ہیں کہ ان کو شک ہورہا ہے کہ ہمبستری کرتے وقت انکا میرے اندر دخول نہیں ہوا، انکو بس شک ہورہا ہے ، جب کہ میں اپنے بچے کے سر پے ہاتھ رکھ کر اللہ‎ کو گواہ بناکر قسم کھاسکتی ہوں کہ دخول ہوا تھا، تھورے ٹائم کے لئے ہی ہوا لیکن ہوا تھا اور جو دو گواہ تھے وہ بھی بتا رہے ہیں کہ اس آدمی نے خود بتایا تھا کہ ہمبستری کے بعد طلاق دے دی ہے۔

میں اور میرے شوہر بہت پریشان ہیں، اللہ‎ کے لئے رہنمائی فرمائیں کہ شریعت میں کیا حکم ہے؟ میرا حلالہ ہو گیا ہے یا نہیں اور میں اپنے پہلے شوہر کے پاس واپس لوٹ سکتی ہوں؟ عدت کے بعد نکاح کر سکتی ہوں یا نہیں؟ کیونکہ یہ ساری زندگی کے حلال حرام کا مسئلہ ہے، اللہ‎ کی ناراضگی اور آخرت کا مسئلہ ہے۔ مفتی صاحب! اللہ‎ کے واسطے اپنی اس بہن کی فریاد سن لیں اور مجھے شرعی مسئلہ بتا دیں کہ اللہ‎ کا کیا حکم ہے؟ اللہ‎ آپ کے اوپر اپنی رحمت کرے۔ آمین۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا اور اجرت طے کرکے حلالہ کروانا مکروہ تحریمی اور گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں اس طرح حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت وارد ہوئی ہے لہٰذا  اس پر توبہ اور استغفار کرنا ضروری ہے البتہ حلالہ ہوچکا ہے، آپ عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہیں كيونکہ حلالہ کے بعد اگر دوسرے شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف ہوجائے، بیوی کہے کہ دخول ہوا تھا اور شوہر کہے کہ نہیں ہوا تھا تو اس اختلاف میں بیوی کا قول معتبر ہوتا ہے۔

در مختار مع رد المحتار (5/51)میں ہے:

(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط …… وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي

(قوله: وتأويل اللعن إلخ) الأولى أن يقول وقيل تأويل اللعن إلخ كما هو عبارة البزازية ولا سيما وقد ذكره بعد ما مشى عليه المصنف من التأويل المشهور عند علمائنا ليفيد أنه تأويل آخر وأنه ضعيف. قال في الفتح: وهنا قول آخر، وهو أنه مأجور وإن شرط لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن عند هؤلاء إذا شرط الأجر على ذلك. اهـ. قلت: واللعن على هذا الحمل أظهر لأنه كأخذ الأجرة على عسب التيس وهو حرام. ويقربه أنه عليه الصلاة والسلام سماه التيس المستعار.

نیز (5/55) میں ہے:

وفيها [أي البزازية] قال الزوج الثاني كان النكاح فاسدا أو لم أدخل بها وكذبته فالقول لها

قوله: (فالقول لها) كذا في البحر. وعبارة البزازية ادعت أن الثاني جامعها وأنكر الجماع حلت للأول وعلى القلب لا. اه مثله في الفتاوى الهنديه عن الخلاصة.

وقال الرافعي: لأن الزوج الثاني صار اجنبيا وهي أمينة على نفسها. اه رحمتي

ہندیہ (1/474) میں ہے:

لو أخبرت المرأة أن زوجها الثاني جامعها وأنكر الزوج الجماع حلت للأول

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved