• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حلالے کی شرط پر نکاح کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی شادی کے بعد فیشن کرتی تھی اور آئی برو بناتی تھی، اس لیے میں نے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ ’’اگر تم نے آئی برو (بھنویں) بنائے تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے‘‘ ایک دن اس نے کمرے میں آئی برو بنائے، جب باہر آئی تو میں نے پوچھا کہ کیوں بنائے ہیں؟ تو وہ کہنے لگی کہ میں نے ماتھے کے بال صاف کرنے کے لیے کریم لگائی تھی تو تھوڑے سے آئی برو  (بھنویں) بھی اس سے صاف ہو گئے، تو اس کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے میں غصے میں آ گیا، میں نے غصے میں کہا کہ ’’میری طرف سے تمہیں طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے‘‘ غصہ نارمل تھا، مجھے معلوم تھا کہ میں  کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں، اس طرح میں نے غصے میں آ کر تین طلاقیں دے دیں، میری بیوی کے گھر والے اہل حدیث ہیں انہوں نے کہا کہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اور میری بیوی زبردستی میرے ساتھ رہتی رہی، چونکہ ہم دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے اس لیے عدت کے اندر کئی مرتبہ میں نے اس سے ہمبستری بھی کی، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ عدت میں اس طرح ملنا میرے لئے جائز نہیں ہے اور گناہ کی بات ہے، میں چونکہ حنفی ہوں اس لیے میرا دل اس طرح رہنے پر مطمئن نہیں ہے، میری ایک بیٹی بھی ہے، ہم میاں بیوی ایک دوسرے  کے بغیر نہیں رہ سکتے، طلاق کے بعد اب تک تین ماہواریاں گزر چکی ہیں، اب ہم باہمی رضامندی سے حلالہ کروانا چاہتے ہیں۔

1.کیا اس کی کوئی گنجائش ہے؟

2.نیز عدت پوری ہو گئی ہے یا عدت میں ہمبستری کی وجہ سے عدت پر کوئی فرق پڑا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت میں حلالے کی گنجائش ہے بشرطیکہ عورت جس مرد سے آگے نکاح کرے اس کے ساتھ یہ طے نہ کیا جائے کہ وہ بعد میں طلاق دے ہاں وہ اپنی مرضی سے طلاق دے تو کچھ حرج نہیں، نیز حلالے میں ہمبستری بھی ضروری ہے۔
  2. مذکورہ صورت میں عدت پوری ہوگئی ہے اور عدت میں ہمبستری کی وجہ سے عدت پر کچھ فرق نہیں پڑا کیونکہ یہ ہمبستری حرمت کا علم ہونے کے باوجود تھی تاہم تین طلاقوں کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ بیوی مجھ پر حرام  ہوچکی ہے ہمبستری کرنا سخت گناہ کی بات ہے لہٰذا سابقہ پر توبہ واستغفار  ہو اورآئندہ کے لیے فوری طور پرمیاں بیوی علیحدہ ہوجائیں۔

در مختار مع رد المحتار (5/51)میں ہے:

(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط …… وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي

(قوله: وتأويل اللعن إلخ) الأولى أن يقول وقيل تأويل اللعن إلخ كما هو عبارة البزازية ولا سيما وقد ذكره بعد ما مشى عليه المصنف من التأويل المشهور عند علمائنا ليفيد أنه تأويل آخر وأنه ضعيف. قال في الفتح: وهنا قول آخر، وهو أنه مأجور وإن شرط لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن عند هؤلاء إذا شرط الأجر على ذلك. اهـ. قلت: واللعن على هذا الحمل أظهر لأنه كأخذ الأجرة على عسب التيس وهو حرام. ويقربه أنه عليه الصلاة والسلام سماه التيس المستعار.

در مختار مع رد المحتار (5/202)میں ہے:

"(وإذا وطئت المعتدة بشبهة) ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى)؛ لتجدد السبب.

 (قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لا تجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثاً ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكراً طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved