• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حمل کے دوران طلاق ثلاثہ

استفتاء

شادی کے ایک مہینے بعد لڑائی شروع ہو گئی، پھر چھوٹی بات پر کبھی ساس کے کہنے پر میرے شوہر مجھے مارتے تھے، حمل کے دوران چار مہینے گذر گئے تو میرے شوہر نے مجھے طلاق تین دفعہ دے دی، تین بار کہا کہ "میں نے تمہیں طلاق دے دی”، صبح کو سب کے سامنے قسم کھائی کہ میں نہیں دی، پھر کسی نے نہیں مارنا، پھر رات کو مجھے مارا اور کہا کہ "میں پھر سے کہتا ہوں کہ میں نے تمہیں طلاق دے دے”۔ رات کو میری ساس بھی موجود تھی اور انہوں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ اپنی امی کو نہ بتانا، کہ میں صبح ہوتے ہی اپنے بیٹے کو سمجھا دوں گی، پھر میں اپنی امی کو فون کیا کہ میں یہاں کس رشتے سے رہوں، پھر امی آئی اور مجھے ساتھ لے گئی۔ چھ مہینے امی کے پاس رہی، اس دوران مجھ پر ہر طرح کے الزامات لگائے گئے، کبھی کہتے کہ یہ بچہ ہمارا نہیں، تو کبھی کہتے کہ ہمارا ہے، تو کبھی کہتے ہم اسے لے جائیں گے بچہ پیدا ہوتے ہی، یہ ہمارا پوتا ہے۔

پھر سب نے کہا کہ حمل کے دوران طلاق نہیں ہوتی جب تک بچہ پیدا نہ ہو جائے، اور بچہ پیدا ہوتے ہی عدت گذر جاتی ہے، اور پھر بچہ پیدا ہونے کے پندرہ دن بعد لینے آ گئے، اور میرے ماموں بھی ساتھ لے آئے، ماموں نے کہا کہ میں نے سارا پتا کر لیا ہے، اور امی کو کہا تم نے کوئی بات نہیں کہنی، تم  بس اس کو بھیج دو، بیٹیاں اپنے گھر میں اچھی لگتی ہیں، امی نے پھر کچھ نہ کہا کہ سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے، ٹھیک ہے کہ جیسے ماموں کہتے ہیں ویسے کر لو، پھر امی نے گھر بھیج دیا، پھر ۔۔۔۔ مہینے گذرے تو ماموں نے میرا نکاح پڑھا دیا جیسے کہ منہ زبانی کہا کہ قبول ہے، پھر ماموں نے میرے شوہر کو سمجھایا کہ جو گذر چکا وہ نہ ہو، پھر تین ہفتے گذرے تو پھر وہ ویسے ہی ہو گئے، پھر انہوں نے مجھے اپنی امی کے سامنے بھی مارا جب بھی آتے تھے، جتنے دن بھی رہتے تھے مجھے مارتے تھے، کبھی اپنی امی کے کہنے پر، کوئی نہ کوئی بات کر دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ مارنے لگتے تھے، کبھی وہ جوتے سر پر مارتے اور کبھی استری کی تار سے اور کبھی کوئی بھی چیز جو ہاتھ میں آجاتی، اس سے مارتے تھے۔ پھر میرے سسر نے مجھ سے کہا کہ تم کسی کو پسند کرتی ہو تو مجھے بتاؤ، تمہاری امی کچھ نہ کرے گی، تمہارا بھائی کچھ نہ کرے گا، تو میں ضرور کروں گا، بار بار یہی کہتے رہے، میں باربار کہتی رہی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھ پر کیوں الزامات لگا رہے ہیں، اور پھر چاچو نے کہا کہ ٹھیک ہے، اب تم نے مجھے نہیں بتایا اور  اب جو بھی تمہارے ساتھ ہو گا، اس کی ذمہ دار تم ہو گی، اور پھر نہ مجھے کہنا کہ میں آپ کو بتانے لگی تھی اور یہ کہہ کر چاچو باہر چلے گئے، اور میرے شوہر کو اپنے ساتھ  لے گئے، پتا نہیں انہوں نے اسے کیا کہا کہ گھر آ کر مجھے  استری کے تار سے مارنے لگے۔ پھر انہوں نے مجھے کہ "میں نے تمہیں طلاق دی” اور کہا کہ "میں تمہیں فارغ کرتا ہوں، تم میری طرف سے فارغ ہو”، میں نے اپنی امی کو فون کیا، چاچو باہر سے آئے اور چاچو کو میں بتایا تو چاچو کہنے لگے کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے بتا دو، پر تم نے نہیں بتایا، اب تم نہ یہاں کی اور نہ وہاں کی، پھر سب کے سامنے جب سب کو بلایا تو چاچو نے کہا کہ وہ جب بھی آتا ہے ہاتھ میں طلاق لے کر آتا ہے،  پھر مجھے جھوٹا کہا گیا۔ اور جیسے ہی ماموں گھر چلے گئے تو انہیں باتوں کی وجہ سے میری ساس نے مجھے مارا اور پھر مجھ سے میرا بچہ چھین لیا، ایک رات میں اپنے بچے سے دور رہی، وہ بھی ماموں کے گھر، پھر مجھے دوسرے دن لینے آ گئے، پھر مجھے گھر چھوڑ آئے، پھر  میرے شوہر جب گھر آتے تھے مجھے مارتے تھے اور کہتے  کہ اب میں نے نہ تمہیں جانے دینا اور نہ جینا دینا، چپ کر کے میں یہی برداشت کرتی رہی، جبکہ وہ مجھے ہر بار یہی کہتے کہ”تم میری طرف سے فارغ ہو”، کیونکہ میں ڈرتی تھی کہ کہیں وہ مجھے سے میرا بچہ نہ چھین لے، پھر کچھ دن گذرے تو میری ساس کے بھڑکانے پر مجھے تین مرتبہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی۔ کچھ دنوں بعد مجھے گھر سے نکال دیا، چاچو نے بھی مارا اور چاچی نے بھی مارا، پھر مجھے گھر سے نکالا گیا، اور میرا بچہ بھی مجھ سے چھین لیا، اور ماموں نے میرا بچہ مجھے واپس لا کر دے دیا، تب سے چار مہینے گذر چکے ہیں، میں امی کے گھر پر ہوں۔ اب وہ ماموں کے گھر کبھی کسی کو بھیجتے ہیں کبھی کسی کو، یہ تو پھر وہ گھر آ جائے، وہ بچہ دے دے۔ اب بتائے میں کیا کروں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے جب تین مرتبہ یہ کہا کہ "میں نے تمہیں دی” اور عورت نے یہ الفاظ خود اپنے کانوں سے سن لیے، تو ایسی صورت میں عورت کو تین طلاقیں ہو گئیں، نکاح ختم ہو گیا، بیوی شوہر پر حرام ہو گئی، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينها. (رد المحتار: 4/ 449)

نوٹ شریعت کی رو سے یہ بات درست نہیں کہ حالت حمل میں طلاق نہیں ہوتی۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

و حل طلاقهن أي الآيسة و الصغيرة و الحامل. (4/ 422)

ترجمہ: ………..حاملہ عورت کو طلاق ہو جاتی ہے۔ فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved