• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حمل کی طرف سے قربانی

استفتاء

کیا تین ماہ کے حمل کی طرف سے فرض یا نفل قربانی کی نیت کرسکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حمل خواہ تین ماہ کا ہو   یا اس سے کم زیادہ کا ہو  اس پر قربانی فرض نہیں ہے لہٰذا اس کی طرف سے فرض قربانی کرنا درست نہیں  اور اگر  اس کی طرف سے فرض قربانی کرنے کا یہ مطلب ہے کہ قربانی تو اپنی  طرف سے ہو اور اس کا ثواب حمل کو ملے تو ایسا کرسکتے ہیں۔البتہ حمل کی طرف سے نفلی قربانی بہر صورت کرسکتے ہیں کیونکہ آپﷺ نے اپنی قیامت تک آنے والی امت کی طرف سے نفلی قربانی کی ہے۔

سنن ابن ماجہ (رقم الحدیث:1322) میں ہے:

عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان اذا اراد ان يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين اقرنين املحين موجوئين فذبح احدهما عن امته لمن شهد بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وذبح الآخر عن محمد وآل محمد صلى الله عليه وسلم .

مرقاۃ المفاتیح (3/1083) ميں  ہے:

أللهم منك ولك عن محمد وامته أي العاجزين عن متابعته في أضحيته وهو يحتمل التخصيص بأهل زمانه والتعميم المناسب لشمول إحسانه والأول يحتمل الأحياء والأموات  أو الأخير منهما.

ردالمحتار (9/554) میں ہے:

(قوله ‌وعن ‌ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب

ردالمحتار (3/180) میں ہے:

وفي البحر: ‌من ‌صام ‌أو ‌صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا. والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره، لإطلاق كلامهم، وأنه لا فرق بين الفرض والنفل وفي جامع الفتاوى وقيل لايجوز في الفرائض.

امداد الفتاویٰ (8/179) میں ہے:

سوال: متوفی کی طرف سے قربانی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آیا اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے اس متوفی کو ثواب پہنچادے یا مثل دیگر شرکاء زندہ کے اس کا نام حصہ پر قرار دے کر قربانی کرے۔

جواب: دونوں طرح درست ہے۔

مسائل بہشتی زیور(1/474) میں ہے:

کوئی شخص اپنے مال میں سے بطور ایصال ثواب میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس میں دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچادے۔ دوسرا یہ کہ اس میت کا نام قربانی کے حصے پر قرار دے کر قربانی کرے۔

یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اور دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والے کو اختیار ہے جتنا چاہے خود کھائے اور جتنا چاہے فقراء کو دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved