• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حاملہ عورت سے نکاح کے بعد پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا دعویٰ

استفتاء

ایک عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی اس عورت نے عدت پوری کیے بغیر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ وہ حاملہ تھی، بچے کی پیدائش پر موجودہ شوہر نے اسے اپنا نام دے دیا۔ اس مسئلے کی بابت شرعی حکم بیان فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱) اگر عورت نے نکاح کے وقت اپنی عدت پوری ہونے کا اقرار کرلیا تھا اور (۲) اس اقرار سے پہلے طلاق کو ساٹھ دن کا عرصہ گزر چکا تھا اور (۳) دوسرے نکاح کے کم از کم چھ ماہ یا زیادہ عرصہ بعد بچہ کی پیدائش ہوئی تھی تو وہ بچہ دوسرے شوہر کا کہلائے گا لہذا اس صورت میں بچے کو دوسرے شوہر کانام دینا جائز ہوگا۔اور اگر مذکورہ باتوں میں سے کوئی ايك بات بھی نہیں پائی گئی  تھی مثلا عورت نے اپنی عدت پوری ہونے کا اقرار ہی نہیں کیا تھا یا اقرار تو کرلیا تھا لیکن طلاق کے بعد ساٹھ دن گزرنے سے پہلے ہی اقرار کرلیا تھا یا ساٹھ دن بھی گزر چکے تھے، پھر اقرار کیا تھا اور اس اقرار کے بعد شوہر نے نکاح کیا تھا لیکن نکاح کے بعد چھ ماہ سے کم میں بچہ کی پیدائش ہوگئی تو ان سب صورتوں میں بچے کا نسب دوسرے شوہر سے ثابت نہیں ہوگا،بلکہ پہلے شوہر سے ثابت ہوگا اوراس صورت میں بچے کو دوسرے شوہر کا نام دینا جائز نہ ہو گا۔

در مختار مع رد المحتار (5/234) میں ہے:

(أكثر مدة الحمل سنتان) …….. (وأقلها ستة أشهر) إجماعا (فيثبت نسب) ولد (معتدة الرجعي) ولو بالأشهر لإياسها بدائع …… (وإن ولدت لأكثر من سنتين) ولو لعشرين سنة فأكثر لاحتمال امتداد طهرها وعلوقها في العدة (ما لم تقر بمضي العدة) والمدة تحتمله ………. (كما) يثبت بلا دعوة احتياطا (في مبتوتة جاءت به لأقل منهما) من وقت الطلاق لجواز وجوده وقته ولم تقر بمضيها كما مر (ولو لتمامهما لا) يثبت النسب، وقيل يثبت لتصور العلوق في حال الطلاق؛ وزعم في الجوهرة أنه الصواب (إلا بدعوته) لأنه التزمه

(قوله: والمدة تحتمله) أي تحتمل المضي……. وعبارة الفتح وغيره: ما لم تقر بانقضاء العدة، فإن أقرت بانقضائها والمدة تحتمله بأن تكون ستين يوما على قول الإمام وتسعة وثلاثين على قولهما ثم جاءت بولد لا يثبت نسبه إلا إذا جاءت به لأقل من ستة أشهر من وقت الإقرار فإنه يثبت نسبه للتيقن بقيام الحمل وقت الإقرار فيظهر كذبها، وكذا هذا في المطلقة البائنة والمتوفى عنها إذا ادعت انقضاءها ثم جاءت بولد لتمام ستة أشهر لا يثبت نسبه ولأقل يثبت. اه

فتاویٰ عالمگیریہ (1/536) میں ہے:

الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب:…. لثبوت النسب ثلاث مراتب الاول النکاح الصحیح وما هو فی معناه من النکاح الفاسد والحکم فیه أنه یثبت النسب من غیر دعوة ولا ینتفی بمجرد النفی وانما ینتفی باللعان فان کام ممن لا لعان بینهما لا ینتفی نسب الولد.

فتاویٰ عالمگیریہ (1/538) میں ہے:

وإذا تزوجت المعتدة بزوج آخر ثم جاءت بولد ان جاءت به لأقل من سنتين منذ طلقها الاول أو مات ولأقل من ستة أشهر منذ تزوجها الثاني فالولد للاول وإن جاء ت به لأكثر من سنتين منذ طلقها الأول أو مات ولستة أشهر فصاعدا منذ تزوجها الثاني فهو للثاني والنكاح جائز وإن جاءت به لأكثر من سنتين منذ طلقها الأول أو مات ولأقل من ستة أشهر منذ تزوجها الثاني لم يكن للأول ولا للثاني

ہدایہ (2/437،باب ثبوت النسب) میں ہے:

واذا تزوج الرجل امرأة فجاء ت بولد لاقل من ستة اشهر منذ یوم تزوجها لم یثبت نسبه لأن العلوق سابق على النكاح فلا يكون منه وإن جاءت به لستة اشهر فصاعدا يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت لأن الفراش قائم والمدة تامة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved