- فتوی نمبر: 27-118
- تاریخ: 19 جولائی 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
1۔میں دبئی میں تین ماہ سے مقیم ہوں یہاں پر عصر کی نماز شافعی مسلک کے مطابق جلدی ہوجاتی ہے،میرا تعلق حنفی مسلک میں دیوبند سے ہے،کیا مجھے عصر کی جماعت کی پابندی کرنی چاہیے یا پھر اکیلے حنفی مسلک کے وقت کےمطابق نماز ادا کرنی چاہیے؟
2۔اگر عصر کی نمازشافعی مسلک کے مطابق جماعت سے پڑھ لیا کریں تو اگر کبھی ظہر کی نماز لیٹ ہوگئی ہو،ادھر شافعی مسلک والی عصر کی اذان ہوجائے تو کیا ظہر قضا ہوجائے گی یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں آپ کو عصر کی جماعت کی پابندی کرنی چاہئے،چاہے اس کے لئے آپ کو شافعی مسلک کے مطابق عصر ادا کرنی پڑے۔
2۔شافعی مسلک کے مطابق اذان ہونے سے ظہرقضا شمار نہ ہوگی ،اس لیے کہ حنفیہ کے مذہب مفتی بہ کے مطابق ظہر کا وقت مثل ثانی تک رہتا ہے۔
امداد الفتاوی جدید مطول (1/117)کے ’’مقدمۃ التحقیق ‘‘میں مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے قولِ راجح کے مطابق ہر چیز کا سایہ اپنے سایہ اصلی سے دو مثل مکمل ہوجانے تک ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔ اور عصر کا وقت اس کے بعد شروع ہوتا ہے؛ لہٰذا عصر کی نماز دو مثل مکمل ہوجانے سے قبل جائز نہیں ہے، اسی پر حنفیہ کا فتویٰ ہے۔ اور یہی معمول بہ ہے۔اور حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام طحاوی رحمہم اﷲ کے نزدیک ظہر کا وقت ایک مثل کے مکمل ہونے تک باقی رہتا ہے، اس کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اور عصر کی نماز مشروع ہونے کے لئے دو مثل کی تکمیل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہی حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک روایت ہے، مگر اس روایت پر مسلک حنفی کے مفتیان کرام فتویٰ نہیں لکھتے ہیں ۔ اور ظاہر الروایت کے خلاف ثابت کیا جاتا ہے؛ لیکن شامی اور ہندیہ وغیرہ میں امام صاحب کے اس قول کی ترجیح کے لئے بہت سارے الفاظِ ترجیح نقل فرمائے ہیں ۔ اس کو حضرات فقہاء نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے:
(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى.
وفى الشامية:وقوله الى بلوغ الظل مثليه هذا ظاهر الرواية عن الامام وهو الصحىح
(ترجمہ) اور ظہر کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے، یعنی سورج کے نصف النہار سے ڈھل جانے سے سایۂ اصلی سے دو مثل پورے ہونے تک باقی رہتا ہے۔ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ سے ایک روایت ایک مثل کی بھی ہے۔ اور یہی صاحبین رحمہما اﷲ اورامام زفر اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اﷲ کا مسلک ہے۔ امام طحاوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں ۔ اور ’’غرر الاذکار‘‘ میں ہے کہ یہی معمول بہ ہے۔ اور برہان میں ہے کہ یہی اظہر ہے۔ اور فیض میں ہے کہ آج کل لوگوں کا عمل اسی پر ہے۔ اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور شامی میں ہے کہ دو مثل کا قول امام صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے ظاہر الروایۃ ہے اور یہی صحیح ہے۔
حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کا اصل مسلک یہی ہے کہ دو مثل مکمل ہونے سے قبل عصر کی نماز جائز نہیں ہے، مگر حجاز مقدس میں حرمین شریفین اور دیگر تمام مساجد میں ایک مثل کی تکمیل پر عصر کی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں دو مثل کا انتظار دشوار ہے؛ اس لئے حرمین شریفین اور مساجد کی جماعت کی حاجت کی وجہ سے ائمہ ثلاثہ اور صاحبینؒ، امام زفر، طحاویؒ کے مسلک کو اختیار کرکے حجاز مقدس میں ایک مثل کی تکمیل پر وہاں والوں کے ساتھ با جماعت عصر کی نماز پڑھ لینا جائز ہوگا۔ اور حرمین شریفین کی جماعت کی فضیلت سے محروم ہونا مناسب نہ ہوگا۔ (فتاوی رشیدیہ مکتبہ فقیہ الامت ۱/ ۴۴۵)
اسی کو بعض اہل فتاوی نے ترجیح دی ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۲/ ۱۴۵)
حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے غیر حجاز میں بھی ایک مثل کے قول کو ترجیح دی ہے۔ (فتاوی رشیدیہ قدیم، ص: ۲۹۶-۲۹۹، جدید ۱/ ۴۴۵)
© Copyright 2024, All Rights Reserved