• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حق تالیف کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

کسی بھی چیز کو مال ہونے میں شریعت نے طبع انسانی کو خاص مقام دیا ہے اور چونکہ طبع زمانے اور احوال کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں،  اسی تغیر و تبدل کے نتیجے میں مختلف زمانوں میں مختلف نئی نئی اشیاء کو مال کا درجہ حاصل ہواحتی کے پچھلی دو صدیوں میں حقوق کو بھی مستقل مال کی حیثیت دی گئی جو کہ حقیقت میں اعراض میں سے ہیں یعنی اپناذاتی وجود نہیں رکھتے۔ ایسے ہی حقوق میں سے ایک حق تالیف (Copy Right) بھی ہے جو آج کل بہت قیمتی مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب معاصر علماء اس کے اندراج(رجسٹریشن) کی وجہ سے اس کے مستقل عین ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ اس عبارت میں ذکر ہے:

ان  للعرف مجالافي ادراج بعض الاشياء في حکم الاموال والاعيان لان المالية کما حکينا عن ابن عابدين رحمه الله تثبت شمول الناس وان هذا الحق بعد التسجيل نحرزاحراز الاعيان ويدخربوقت الحاجة ادخار الاموال وليس في اعتبار هذاالعرف مخالفة لاي شرعي من الکتاب اولسنة وغايته ان يکون مخالفا للقياس والقياس يترک للعرف کما تقرر في موضعه ونظراالي هذا النواحي افتي جميع العلماء المعاصرين بجواز بيع حق اذکرمنهم من علماء القارة الهندية:

مولاناالشيخ فتح محمد رحمه الله تلميذ الامام عبدالحي اللکنوي رحمه الله،

مولانا الشيخ المفتي کفاية الله،العلامة الشيخ نظام الدين مفتي دارالعلوم ديوبند ،الفضيلة الشيخ عبدالرحيم اللاجپوري

(بحوث في قضايا فقيه معاصره1/123)

لہذا اس پر مزید احکام یعنی ہبہ، بیع ،وقف الگ سے مرتب ہوں گے۔ان احکامات میں سے وقف پر پیدا ہونے والے سوالات درج ذیل ہیں:

  1. اب جبکہ حق تالیف ایک قیمتی مال منقول شمار کیا جاتا ہے تو کیا اس کا وقف کرنا درست ہے؟
  2. حق تالیف مصنف/ مؤجد کی حیات میں اور وفات کے بعد 60 سال تک ملک ذاتی تصور کیا جاتا ہے اس کے بعد یہ

عام پراپرٹی بن جاتا ہے۔

يستخق المؤلف استثمار مصنفه في حياته وکذا ورثته من بعده في مدة اقصاهاستون عاما وبعدها صبح الکتاب مملوکا ملکية عامةکالموقوفةللفرس اوالبناء علي اساس عقدالاجارة الطويلة۔المعاملات المالية المعاصرة لدکتوروهبة الزحيلي:ص:586)

اگر مصنف/مؤجد نے حق تالیف وقف کیا ہے تو کیا ساٹھ سال بعد یہ وقف عام میں تبدیل ہوگا؟اس پراپرٹی کی نوعیت ملک ذاتی سے ملک عامہ کی طرف بدلنے سے وقف خاص ہی رہے گا یا وقت عام ہوجائے گا؟

  1. اگر وقف عام کیا تو کیا وفات کے ساٹھ سال بعد واقف کی شرائط برحال ہوں گی؟
  2. اب یہ واقف کے مقرر کردہ متولی کے پاس رہنے دیا جائے گا؟اور اگر کسی اور کی تحویل میں دیا جائے گا تو اس کی تعیین کیسے ہوگی اور کون کرے گا؟
  3. اب نوعیت کی تبدیلی( ملک ذاتی سےملک عامہ) سے صیغہ تابید پر کوئی اثر پڑے گا؟

6.یہ تو ثابت ہے کہ وقف سے اصل مقصود غرباء ،فقراء وغیرہ کی مدد ہے تو پھر وقف کی وجہ سے ثابت ہونے والے موقوف علیہ/ علیہم کے لیے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟

  1. اگر پہلے یہ وقف خاص تھا اب یہ وقف عام ہوگیایا تو غریبوں میں تو فقرا ء،مساکین،یتیم، بیوہ عورتیں، حاجتمند، مسافر وغیرہ ہوتے ہیں تو کیا یہ سب شامل ہوں گے یا بعض؟تعیین کیسے کی جائے گی؟اور ان میں آمدن کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟گزارش ہےکہ جوابات ائمہ اربعہ کے دلائل کی روشنی میں مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حق تالیف(Copy Right)  حقوق کی اس قسم میں سے ہے جو محض دفع ضرر کے لیے ہوتے ہیں،کیونکہ حق تالیف کے ذریعے دوسروں پر اس کتاب کے چھاپنے پر پابندی لگوائی جاتی ہے، تاکہ اس شخص کی کمائی کا نقصان نہ ہو  اور اس قسم کے حقوق کا حکم یہ ہے کہ ان کا معاوضہ نہ بیع کی صورت میں لیا جا سکتا ہے اور نہ دستبرداری کی صورت میں، اس لیے اس حق کو عین شمار کرنا اور اسے بیع، ہبہ اور وقف کے قابل سمجھنا درست نہیں ۔تفصیل کے لئے دیکھئے’’ فقہی مضامین‘‘ (صفحہ 432)تالیف:ڈاکٹرمفتی عبدالواحدصاحبؒ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved