• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حرام آمدنی والے کے ہاں کھانا پینا

استفتاء

مفتی صاحب میراسوال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی دعوت کرتا ہے اور جس آدمی کی وہ دعوت کر رہا ہے اسے معلوم ہے کہ اس کا سود کا کاروبار ہے یا  کسی طرح بھی اسے پتا ہے کہ اس کے پاس جو پیسے ہیں وہ حلال کی کمائی کے نہیں ،بلکہ حرام  کی کمائی کے ہیں تو اس کی دعوت کھانا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ ذرا اس کی وضاحت فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس کی  آمدنی کا اکثر حصہ حلال ہو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کے ہاں کھانا کھاناجائز ہے اور اگر اس کی کمائی کا اکثر حصہ حرام ہوتو اس کی دعوت قبول کرنا یا اس کاکھانا کھانا جائز نہیں ،البتہ اگر وہ خود کہہ دے کہ یہ کھانا حلال کمائی کے پیسوں سےحاصل کیا گیا ہے تو اس کا کھانا جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری (5/343)میں ہے:

لا يجيب دعوة الفاسق المعلن ليعلم أنه غير راض بفسقه وكذا دعوة من كان غالب ماله من حرام ما لم يخبر أنه حلال وبالعكس يجيب ما لم يتبين عنده أنه حرام كذا في التمرتاشي…… آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها كذا في الملتقط

وایضا فی امداد الفتاوی (4/243)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved