- فتوی نمبر: 4-154
- تاریخ: 21 ستمبر 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
میرا تعلق ایک بے دین گھرانے سے ہے۔ میرے والد تاجر ہیں۔Agricultural machinery, generators, tube well وغیرہ کا ذاتی کاروبار ہے۔
جس مارکیٹ میں کام کرتے ہین اس میں آدھی سے زیادہ پر ناجائز قابض ہیں۔ زمین حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ گنڈا گردی سے اپنے قبضے میں کی ہوئی ہے۔ مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ جعل سازی کر کے زمین اپنے نام کروالی ہے۔ دھوکا دہی اور جھوٹ بول کر مال تجارت فروخت کرتے ہیں، جعلی مہریں لگا کر مال بیچتے ہیں، مثلاً مشین پاکستان کی اپنی بنی ہوگی تو چائنہ یا جاپان کی مہر لگا کر زیادہ مالیت میں فروخت کر دیں گے۔ اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں۔ کئی بار مقدمہ بھی ہوا ہے۔ ایسا ساری زندگی کرتے آئے ہیں یا کبھی کبھار کرتے ہیں۔ اس کا صحیح علم نہیں ہے۔سودی بینکوں میں کروڑوں روپے پروفٹ ڈیپازٹ ہیں۔ ماہانہ لاکھوں میں سود ملتا ہے۔ اکثر سود پر قرضہ بھی دیتے ہیں۔ بجلی چوری کرتےہیں۔ زکوٰة کبھی ادا نہیں کی۔ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ رشوت دے کر معاملات کو دبا دیتے ہیں۔شریعت ، اللہ و رسول کے انکاری ہیں۔ طیش میں آکر اکثر گالی گلوچ بھی کرتے ہیں۔ (اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے )۔ فسق و فجور کوٹ کوٹ سر بھرا ہوا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة ، حج ہر عبادت سے غافل ہیں۔ جب کبھی بات پر زور دیتی ہو تو کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں عقائد و اعمال سخت خراب اور شیطانی ہیں۔
میرے والدین نے میری شادی ایک نوکری پیشہ شخص سے کی تاکہ لڑکے کو رعب میں رکھ سکیں اور لڑکی کو اپنا محتاج، میری مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً پیسے دیتے رہتےتھے۔ ان میں سے دس لاکھ تک صدقہ کر چکی ہوں۔ تئیس لاکھ ابھی بھی
میرے قبضے میں ہیں۔ اول تو اب اور پیسے نہیں لیتی مگر کبھی زبردستی دے دیں تو خاموشی سے صدقہ کر دیتی ہوں۔
شوہر نے شادی دولت کی خاطر کی۔ حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے۔ پیسہ ان کی کمزوری ہے۔ پیسے کی وجہ سے اکثر اوقات جھگڑا رہتا ہے۔ شوہر کی خواہش یہی ہے کہ ہر چیز بیوی کے گھر والے پروائیڈ ( مہیا ) کریں۔ اس کو مالی طور پر سپورٹ ( امداد ) کریں۔ حالات ایسے کر دیتے ہیں کہ مجبور ہو جاؤں۔
شوہر پر امیر بننے کا جنون ہے۔ قرضے لے کر کئی جگہوں پر پلاٹ لیے ہیں۔Insurance, Prize bonds اور Govt Defence Saving certificate جیسی سکیموں میں مال لگایا اور بڑھاتے رہے۔ نہ کبھی زکوٰة ادا کی نہ ہی قرضہ ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ آج ایک پلاٹ بھی بیچیں تو سب ادا ہو سکتا ہے۔ لیکن بالکل بات نہیں مانتے ، تنخواہ میں مشکل سے گذارا ہوتا ہے۔ سسرال کا ماحول بے حیائی اور بے پردگی کا ہے۔ ہر وقت فتنہ و فساد کھڑا رہتا ہے۔ جیٹھ سودی بینک میں بہت بڑے افسر ہیں۔ حرام وافر مقدار میں موجود ہے۔ میری شادی کو دس سال ہونے والے ہیں۔ دو چھوٹے چھوٹے بیٹے ہیں۔ اپنے خاندان و سسرال میں اکیلی شرعی پردہ کرتی ہوں۔ سب پردہ کرنے پر خائف رہتے ہیں۔ اس لیے سسرال میں نہیں رہتی نہ ہی وہ لوگ کوئی جگہ دیتے ہیں۔
میری والدہ کو طلاق ہوچکی ہے۔ میں ان کے گھر میں رہتی ہوں۔ شوہر بھی ساتھ رہتے ہیں۔ استطاعت ہونے کے باوجود گھر کا بندوبست نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ” اگر باپ کا پیسہ جائز نہیں ہے تو تمہارا خون بھی جائز نہیں۔ جاؤ اپنا خون بھی بدلوا لو”۔ اور بہت گندی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی خواہش اور پوری کوشش یہی تھی کہ بیوی کے پیسے کو اپنی مرضی سے انوسٹ کریں۔ بڑی مشکل سے اور بہت لڑائی جھگرے کے بعد ان سے اپنے پیسے نکلوائے ہیں۔
میں نے 23 لاکھ اپنے ایک عزیز محرم کو دیے ہیں میرے شوہر کے علم میں نہیں ہے کہ وہ پیسہ میں نے کس کو دیا ہے وہ ابھی تو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ پیسہ میرے پاس ہی ہے میں نے اس عزیز کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اگر میرے اچانک موت ہوجائے تو یہ پیسہ سارا کا سارا صدقہ کر دیا جائے۔ اس بات کا علم صرف میری والدہ کو ہے۔ کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟
وہ عزیز پیسے سے مال خرید کر اپنی دکان پر رکھ دیں گے اور جو منافع ملے گا مجھے دے دیں گے۔ میں نے اس مال کی زکوٰة بھی نکالنی ہے۔ مال کو ایک دم صدقہ نہیں کرسکتی کیونکہ معلوم نہیں کے آنے والے وقت میرا شوہر میرے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔
رازق صرف اللہ کی ذات ہے۔ مال و دولت نہیں لیکن اس طرف سے کوشش کر رہی ہوں کہ شریعت میں رہتے ہوئے جائز طریقے سے زندگی گذار سکوں۔ اپنی اولاد کی جائز ضروریات اور تعلیم و تربیت پر پیسہ خرچ کروں۔ انہیں حرام سے بچانے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ اکیلی ہوں، سب مذاق اڑاتے ہیں۔ کوئی مدد نہیں کرتا بلکہ مشکلیں ہی پیدا کرتے ہیں۔
نیت و ارادہ یہی ہے کہ اتنا جائز مال جمع کرلوں کہ اس سے بزنس کر سکوں۔ ساتھ ساتھ باپ کے دیے ہوئے پیسوں کو صدقہ بھی کرتی رہوں ۔ کوشش یہی ہوگی کہ اپنی زندگی میں ہی سارا مال صدقہ کردوں لیکن موت بھی ایک حقیقت ہے۔ نہ جانے کب آجائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب سے وصیت کے احکام پڑھے ہیں تشویش رہتی ہے کہ میں صرف ایک تہائی مال کی وصیت ہی کر سکتی ہوں۔ باقی مال وارثوں کا ہے۔ پریشانی رہتی ہے کہ کہیں غلط وصیت کر کے جہنم میں نہ چلی جاؤں۔
میری رہنمائی کر دیں۔ مجھے کسی معتبر دینی شخصیت نے کہا تھا۔ کہ شریعت میں بہت گنجائش ہے۔ اگر آپ mixed
money کے مالک ہیں اور اس پیسے کو کسی جائز کاروبار میں لگائیں تو حاصل شدہ منافع جائز و حلال ہوتا ہے۔ لیکن ایسے مال کی وصیت کیسے کرتے ہیں؟ اگر میں مال چھوڑ کر مرتی ہوں تو گنہگار ہونگی؟ کیا یہ مال میرے وارثوں کے لیے جائز ہے؟
الجواب
آپ کے پا س جو 33 لاکھ روپے تھے ان میں آپ اندازہ لگائیے کہ کتنی رقم حلال ہوگی اور کتنی حرام ہوگی۔ سب کی سب رقم تو حرام نہ ہوگی کیونکہ آپ کے والد کا بہر حال کا روبار بھی ہے۔ مثال کے طور پر آدھی حلال اور آدھی حرام ہونے کا اندازہ ہوتو آپ ساڑھے سولہ لاکھ اپنے پاس رکھ سکتی ہیں کیونکہ وہ حلال ہوئے اور ساڑھے سولہ لاکھ حرام ہوئے۔ اب اس میں دو صورتیں ہیں:
1۔ آپ ساڑھے سولہ لاکھ جو حرام ذریعہ سےہیں وہ صدقہ کر دیجئے مثلاً آپ دس لاکھ صدقہ کر چکی ہیں تو ساڑھے چھ لاکھ مزید صدقہ کر دیجئے اور باقی کو اپنے استعمال میں لائیں یا اس سے کاروبار کریں۔
2۔ آپ نے 33 لاکھ کاروبار میں لگائے ہیں۔ اس کا جو نفع آتا ہے اس میں سے اپنا خرچہ بھی چلائیں اور کچھ کچھ صدقہ بھی کرتی جائیں۔ صدقہ کا حساب رکھیں یہاں تک کہ بقایا ساڑھے چھ لاکھ صدقہ میں ادا ہوجائے۔
اوپر کے طریقے کے مطابق جو رقم حلال ہو وہ آپ اپنی ملکیت میں رکھیں اور جائز کاروبار میں لگائیں ور اس کو اپنے بچوں کے لیے باقی رکھیں تاکہ آپ اپنی زندگی میں وہ رقم ان کو دے سکیں یا آپ کے بعد ان کو ملے اور ان کو معلوم ہو کہ ان کی والدہ نے حلال کی تحصیل اور حرام سے اجتناب میں کس قدر اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی کو قبول فرمائیں اور آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں۔ آپ نرمی سے سمجھاتی رہیں۔ گفتگو میں سختی نہ کریں۔ اگر آپ کے شوہر یا والد غصہ میں آئیں تو جواب میں قطعا غصہ نہ کریں اور اس وقت مزید نصیحت کو منقطع کر دیں۔ بعد میں کبھی موقع پاکر پھر کچھ کہہ لیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اپ اپنے شوہر کو راضی کر کے ان کے ساتھ وقتاً فوقتاً تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ کچھ وقت لگاتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں۔ و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved