• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حرام کمائی اورحلال کمائی سے بنے گھر سے حصہ لینا جائز ہے؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

عرض ہے کہ بندہ شادی شدہ اور ایک بچے کا والد ہے اور تاحال والدین کے زیر کفالت ہے۔والد صاحب کے گاؤں میں دو گھر اور ایک پلاٹ ہے،اس تمام جایئداد کے بنانے میں حلال کم اور حرام پیسوں کا استعمال زیادہ ہوا ہے،حتی کہ یہاں تک سنا گیا ہے کہ والد صاحب مدرسہ کی نقلی رسید کے تحت پیسے بھی جمع کرتے رہے ہیں ، اور اب بھی سال میں متعدد بار یہ سلسلہ چلتا رہتاہے۔

اب میری ماہانہ آمدن اتنی نہیں ہے کہ میں الگ کرایہ پر گھر لے کر اپنا اور بیوی بچوں کا سرکٹ چلا سکوں اور مستقبل میں بھی کوئی ایسی امید نظر نہیں آتی،باقی اللہ بہتر جاننے والا ہے،والد صاحب کا ارادہ ہے کہ گاؤں والا  مکان یا پلاٹ بیچ کر شہر میں مکان خرید لیا جائے۔اب ظاہر بات ہےکہ  ان حلال و حرام کے بنے ہوئے گھروں اور پلاٹ کو بیچ کر انہی پیسوں سے گھر خریدیں گے اور والدین اپنی زندگی میں وراثت بھی تقسیم کر سکتے ہیں یا بعد میں، تو تقسیم ہونی ہی ہونی ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ :

1 ) ہم سب بہن بھائیوں کا اس حرام کے پیسوں سے بنے گھر میں مستقل رہنا کیسا ہے؟

میرے علاوہ سب بہن بھائی تو رہنے کو تیار ہو جائیں گے کیونکہ انہیں حلال و حرام سے کوئی سر وکار نہیں ہے ،انہیں تو بس چیز ملنی چاہیےاور نا ہی وہ علم دین سے کوئی خاص وابستگی رکھتے ہیں اور وہ تو الگ کرایہ پر بھی رہ سکتے ہیں۔لیکن میں اکیلا کہاں جاؤں گا ؟

2) اگر جایئداد تقسیم ہو جاتی ہے تو پھر میرا اس میں رہنا یا جایئداد کا حصہ لینا کیسا ہے ؟( البتہ میں اپنا الگ انتظام کرنے کی کوشش کرونگا )۔

3) اگر میرے اپنے الگ ہونے کی کوئی صورت نہ بن سکے  تو میں ان سب کے ساتھ رہ سکتا ہوں ؟

برائے مہربانی اس کا تفصیلی جواب بمع دستخط کے عنایت فرمائیں۔

” جزاکم اللہ خیرا فی الدنیا والآخرۃ ”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2-3 ۔ مذکورہ صورت میں یہ بات کسی یقینی ذریعے سے ثابت نہیں کہ دو گھروں اور پلاٹ کے بنانے میں حلال کم اور حرام زیادہ استعمال ہوا ہو، لہذا اگر آپ کے والد ان دو گھروں اور پلاٹ کو فروخت کر کے شہر میں کوئی گھر خریدتے ہیں تو آپ یا آپ کے بہن بھائی اس گھر میں رہ سکتے ہیں،اسی طرح والد صاحب اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کریں یا ان کی وفات کے بعد وراثت تقسیم ہو آپ کو اپنا حصہ لینے کی گنجائش ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 342)

أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام

وفيه ايضا

قال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى اختلف الناس في أخذ الجائزة من السلطان قال بعضهم يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام قال محمد رحمه الله تعالى وبه نأخذ ما لم نعرف شيئا حراما بعينه وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى وأصحابه كذا في الظهيرية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved