• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حرام کمائی میراث میں شامل نہ ہوگی

استفتاء

گذارش ہے کہ ہمار محلے کے مولوی صاحب نے علم الفرائض کے بارے میں درس کے دوران ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی تمام جائیداد نہ ترکہ میں شمار کی جائےگی اور نہ میراث کے طور پر ورثاء میں تقسیم ہوگی۔ مولوی صاحب کےمطابق صرف حلال ذریعہ سے حاصل  کی ہوئی جائیداد ترکہ اور میراث میں شامل ہوگی۔ ناجائز طور پر حاصل کر دہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ متوفی کی ملکیت قرار نہیں دی جائیگی اور نتیجتا ًترکہ اور میراث میں شامل نہ ہوگی۔مثلاً اگر :

1۔ متوفی نے کسی جائیداد ، زمین ، مکان، باغ، پلاٹ یا مال کو غصب کر لیا ہے اور سرکاری کاغذات میں اپنے نام اندراج کر والیا ہے تو ورثاء پر لازم ہے کہ ایسی تمام منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کو متوفی کی ملکیت اور ترکہ میں شامل نہ کریں اس لیے کہ ایسی جائیداد کبھی بھی متوفی کی ملک میں آئی ہی نہیں۔ اور ورثاء میں تقسیم نہ کریں۔ بلکہ اس کے جائز مالکان کو تلاش کریں اور ایسی تمام جائیداد اس کو واپس کریں۔ ورنہ عند اللہ ورثاء بھی اسی طرح آخرت میں جوابدہ ہوں گے جیسے کہ متوفی ۔ اگر جائز مالک نہ مل سکے تو ایسی تمام جائیداد کو بلا نیت ثواب صدقہ کریں۔

2۔ اسی طرح اگر متوفی نےکوئی ایسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد چھوڑی ہے جو رشوت کے پیسے سے بنائی گئی ہے تو ایسی جائیداد متوفی کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی اور اس میں میراث جاری نہیں ہوگی۔ ورثاء پر لازم ہے  کہ ایسے تمام افراد کو تلاش کریں جن سے متوفی نے رشوت لی تھی اور جائیداد فروخت کر کے رشوت کے پیسے ان کو واپس کریں اور اگر وہ اشخاص نہ مل سکیں تو ایسی تمام جائیداد کو بلا نیت ثواب صدقہ کریں ورنہ ورثاء بھی عنداللہ اسی طرح جوابدہ ہونگے۔

3۔  مولوی صاحب کے مطابق یہی معاملہ سود کی رقم سے بنائی ہوئی جائیداد کا ہوگا۔

آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ مولوی صاحب کےرائے سے متفق ہیں تو موجودہ زمانہ کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمائیں کہ کیا؟

۱۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء فوری طور پر متوفی کی تمام  جائیداد کا بنظر غائر جائزہ لیں اور مکمل تحقیق کریں کہ کتنی    جائیداد  جائز  ذرائع  سے حاصل کی گئی  اور کتنی ناجائز ذرائع سے اور اس سلسلہ میں اعلان کریں اور اشتہار دیں اور یوں پس مرگ اپنے

مورث کی ذلت و رسوائی کا سامان کریں۔ کیا متوفی کےمعاملات میں تحقیق اورتجسس مستحسن اقدام ہوگا؟

۲۔ کسی شخص کے پاس جائز ذرائع ، ملازمت، تجارت ، ذراعت یا وراثت سے آمدنی ہے ۔ اس رقم کو وہ بینک کے سودی اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے ایک طویل عرصہ کےبعد وہ اصل  رقم   اور حاصل شدہ سودی رقم کے ملے جلے فنڈ سے ایک مکان یا باغ خریدتا ہے اور پھر انتقال کر جاتا ہے ۔ اب ورثاء کیا کریں؟ اگر تمام ورثاء  لمبی چوڑی تحقیق اور جائز و ناجائز حصہ کی تفتیش اور تنقیح اور پھر ان کو جدا جدا کرنے کی طویل مشقت اٹھانے کےلیے تیار نہ ہوں تو کیا صورت اختیار کی جائے۔

۳۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے جائز آمدنی اور رشوت کی آمدنی کے مشترکہ فنڈ سےکوئی جائیداد خریدی تو ورثاء کیا لائحہ عمل اختیار کریں؟ اسی سلسلہ میں ایک اور صورت حال سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کثیر تعداد میں لوگوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ بیسویں صدی عیسوی کی پانچویں دہائی میں حکومت پاکستان  نے مہاجری سے ان کی ہندوستان میں متروکہ زرعی  اراضی اور دیگر غیر منقولہ جائیدادوں کے کلیم ( دعاوی ) طلب کیے ۔ یہ دعوے دستاویزی ثبوت اور اس کی غیر موجودگی میں حلف ناموں کی بنیاد پر منظور کر لیے گئے۔ اور ان  کلیمز کی بنیاد (بدلہ ) میں مہاجرین کو ہندوؤں کی متروکہ زرعی زمینیں مکانات اور دکانیں ( جو ہندوؤں کی ہندوستان نقل مکانی کی وجہ سے حکومت پاکستان کی تحویل میں تھیں۔ ) مالکانہ حقوق کے ساتھ منتقل کر دی گئیں۔ بہت سارے  لوگوں نے ہندوستان میں کوئی زرعی اراضی یا جائیداد نہیں  چھوڑی تھی لیکن انہوں نے غلط کلیم داخل کروائے اور بیان حلفی یا غلط گواہی کی بنیاد پر ان کے کلیم منظور کر لیے گئے جس کا حقیقتا ان کو کوئی استحقاق نہیں تھا۔اس کلیم کے عوض بھی ایسے لوگوں کو زرعی اراضی ، مکانات اور دکانیں مالکانہ حقوق کے ساتھ منتقل ہوگئے۔

ایسے ہی ایک  صاحب کا انتقال 1970ء میں ہوا۔ انہوں نے زرعی زمینیں اپنے نام، اپنی اہلیہ کے نام اور اپنی متعدد اولاد میں سے دو نابالغ  بیٹوں کے نام پر حاصل کیں۔ ایک مکان بھی حاصل کیا۔ ان کےا نتقال کے بعد ان کی ملکیت میں جو زرعی زمین تھی وہ ان کے ترکہ میں شمار ہو کر میراث کے طور پر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگئی۔ اس کے بعد دو بڑے بیٹوں نے جن کے نام پر باپ نے اراضی حاصل کی تھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اپنی اراضی اس اراضی کے ساتھ شامل کر دیں جو چاروں بیٹوں کے حصہ میں آئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ دو چھوٹے بھائیوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ورنہ دو چھوٹے بھائیوں کے حصے بہت کم ہو جاتے اور دو بڑے بھائیوں کی جائیداد بہت زیادہ ہو جاتی۔ اس طرح بیوہ او ربیٹوں کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی ماندہ تمام اراضی جو بیٹوں کو میراث میں ملی اور جو  دو بڑے بیٹوں کے نام پر تھی سب کو ملا کرچاروں بیٹوں میں برابر تقسیم  کردی گئی۔ کچھ عرصہ کےبعد چاروں بیٹوں نے اپنی اپنی ررعی اراضی اور مشترکہ مکان کو فروخت کر کے ( آپس میں بیوہ کو شامل کر کے تقسیم کر لیا ) اور کسی نے کراچی میں گھر بنا لیا اور کسی نے کاروبار شروع کیا۔

آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ مندرجہ  بالاصورت حال میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ اور اب متوفی کے بیٹوں کو کیا کرنا چاہیے ۔ واضح رہے کہ دو بیٹوں نے کاروبار  شروع کیا تھا  اور دونوں کو نقصان ہوگیا اور اب ان کے پاس کوئی رقم نہیں ہے۔ دو بھائیوں نے مکان بنائے تھے وہ موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی کے پاس کوئی رقم یا مال نہیں ہے اور مکان کے ایک حصہ کو کرایہ پر دیا ہوا ہے اور یہی ذریعہ آمدنی ہے۔ آپ سے انتہائی عاجزانہ اور مودبانہ گذارش ہے کہ مولوی صاحب کے بیان کردہ مسئلہ پر تحقیق اور مفصل رائے کتب فقہ کے حوالے سےعنایت فرمائیں اور شریعت مطہرہ کے احکامات کی طرف رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔

آخری گذارش یہ ہے کہ زمانہ کے عمومی حالات کے پیش نظر اور مسئلہ کی اہمیت کی مدنظر رکھ کر اسے کسی زیر تربیت نو آموز مفتی صاحب کے حوالہ نہ فرمائیں ۔ مولوی صاحب کے بیان سے بہت سے سارے لوگ شدید ذہنی کرب اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں جن جائیدادوں کا ذکر ہے وہ تین قسم کی ہیں:

1۔ زمین، مکان، پلاٹ یا باغ کو غصب کیا ہو۔

2۔ ایسی رقم سے جائیداد خریدی جو کل حرام ہو مثلاً رشوت ہو یا غصب ہو یا حلال و حرام کا آمیزہ ہو۔

3۔وہ جائیداد جو جھوٹا کلیم داخل کرنے پر حکومت نے عطا کی ہو۔

ان اقسام کا حکم:

پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ وہ جائیداد غاصب کی ملکیت میں آتی ہی نہیں اور وہ اصل مالکان کو یا ان کے ورثاء کو واپس کرنا ضروری ہیں۔

دوسری قسم کا حکم  امام کرخی رحمہ اللہ کے مطابق یہ ہے کہ خریدار ان جائیدادوں کے مالک بن جاتے ہیں اور ان میں ان کی وراثت چلتی ہے البتہ رشوت لینے کا یا سود لینے کا یا غصب کرنے کا گناہ ہوگا۔ امام کرخی رحمہ اللہ کا قول ان حالات میں ہے جب حرام کی کثرت ہو ،ورنہ وہی قول ہے جو مذکورہ مولوی صاحب نے بتایا ہے۔

تیسری قسم میں حکومت کی عطا کی وجہ سے لینے والے کی ملکیت آجاتی ہے اور نتیجہ میں میراث بھی جاری ہوگی البتہ دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا گناہ ہوگا۔

گناہ کی صورت میں کتنا ہوگا کتنا نہیں یہ ہماری بحث سے خارج ہے بس اتنا کہتے ہیں کہ  یہ بڑے بڑے گناہ ہیں۔ اور اصل آدمی کے ذمہ میں دین داری باقی رہتی ہے۔ امام کرخی رحمہ اللہ کا قول یہ ہے:

توضیح المسئلة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه أم أن يدفع تلك الدراهم إلى البائع أو لا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها و دفعها أو اشترى قبل الدفع بها و دفع غيرها أو اشترى مطلقاً و دفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخر و دفع تلك الدراهم ……. و قال الكرخي رحمه الله في  الوجه الأول و الثاني لا يطيب و في الثلاث الأخيرة يطيب. و قال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن النساء . و في الولواجية و قال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها و هو المختار لكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعاًللحرج لكثرة الحرام. و على هذ مشى المصنف في كتاب الغصب تبعاً للدرر و غيرها. ( رد المحتار: 4/ 244 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved