- فتوی نمبر: 5-303
- تاریخ: 12 فروری 2013
استفتاء
عاملین نقوش لکھتے ہوئے مخصوص تعداد اور ترتیب سے حروف اور اعداد کا استعمال کرتے ہیں اور اس میں ستاروں کی سعد اور نحس ساعتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بعض عامل ان حروف اور اعداد کو براہ راست موثر مانتے ہیں۔ اور بعض ان حروف کو مؤکلات کے ساتھ موثر مانتے ہیں۔ آسیب اور مختلف بیماریوں کے لیے انہیں آویزاں کرنا، گلے میں لٹکانا، کہیں دبانا، یا فتیلہ کی صورت میں جلا کر اس کا دھواں دینا مستعمل ہیں۔ مذکورہ بالا صورتوں میں تاثیر الحروف اور تاثیر الاعداد کی کیا حقیقت ہے؟ نیز حتمی رائے قائم کرنے کے لیے کیا دلائل ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر حروف و اعداد کو موثر بالذات سمجھا جاتا ہو اور ساعات سعد و نحس کو اسی طرح مؤثر بالذات سمجھا جائے تو یہ کفر ہے اور اگر ستاروں کی ساعات سعد و نحس کو مؤثر بالذات نہیں مانتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو اسباب عادیہ سمجھتا ہو تو یہ کفر تو نہیں نہیں لیکن مکروہ پھر بھی ہے۔
اور اگر ستاروں کی ساعاتِ سعد و نحس کی رعایت رکھے بغیر محض قران کی کسی آیت یا حدیث کی کسی دعا کے اعداد و حروف کو اس لیے لکھا جاتا ہو کہ قران و حدیث کی بے ادبی نہ ہو اور جو فائدہ قران و حدیث کے الفاظ کا ہے وہ فائدہ ان کے اعداد سے بھی حاصل ہوجاتا ہے جو کہ تجربہ سے ثابت ہے تو یہ صورت جائز ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال النووي و اختلفوا في كفر من قال مطرنا بنوء كذا على قولين أحدهما هو كفر بالله سبحانه سالب لأصل الإيمان و فيه وجهان أحدهما أنه من قاله معتقداً بأن الكواكب فاعل مدبر منشيء للمطر كزعم أهل الجاهلية، فلا شك في كفره و هو قول الشافعي و الجماهير، و ثانيهما أنه من قال معتقداً بأنه من الله تعالى بفضله و أن النوء علامة له مظنة بنزول الغيث فهذا لا يكفر لأنه بقوله هذا كأنه قال مطرنا في وقت كذا و الأظهر أنه مكروه كراهة تنزيه لأنه كلمة موهمة مترددة بين الكفر و الإيمان فيسآء الظن بصاحبها و لأنه شعار أهل الجاهلية. ( مرقات: 8/ 364)
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اس سے ثات ہوا کہ کواکب کی تاثیر غیبی کا قائل ہونا ایک گونہ شرک ہے اکثر عملیات میں ساعت یا دن کی قید ہوتی ہے جس کی رعایت عامل کرتے ہیں بعض عامل مہینہ کے عروج و نزول کا لحاظ کرتے ہیں، اور ان سب کی بنیاد وہی نجوم کی تاثیر کا اعتقاد ہے۔ یہ حدیث اس کو باطل اور معصیت ٹھہراتی ہے۔ ‘‘( عملیات و تعویذات کے شرعی حکم: 102)
نیز فرماتے ہیں:
’’ اگر کوئی ان کواکب کی تاثیر کا قائل ہو اس کے حکم میں تفصیل یہ ہوگی کہ اگر وہ شارع کی تکذیب نہیں کرتا، بلکہ بلکہ بعض نصوص میں کچھ تاویل کرتا ہے اور کواکب کو مستقل بالتاثیر نہیں مانتا بلکہ باذن الٰہی ان کو اسباب عادیہ سمجھتا ہے، سو چونکہ یہ اعتقاد واقع کے خلاف ہے اس لیے اس شخص کو صرف جھوٹ کا گناہ ہوگا اور نصوص کی تاویل سے تعجب نہیں کسی قدر بدعت کا بھی گناہ ہوگا۔ اگر شارع علیہ السلام کی تکذیب کرتا ہے، یا کواکب میں مستقل تاثیر مانتا ہے تو وہ شخص کافر و مشرک ہے۔ ‘‘( ایضاً 104)
اور امداد الفتاویٰ میں علم نجوم پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
تیسرے عام طور پر خود اہل فن اور دوسرے رجوع کرنے والے بھی کواکب کو متصرف و فاعل مستقل سمجھتے ہیں۔ جو مثل عقیدہ علم غیب کے خود یہ عقیدہ استقلال فعل و تصرف کا شرک جلی اور منافی توحید ہے۔ پانچویں جس طرح عقیدہ باطلہ معصیت ہے اسی طرح عمل مشروع بھی معصیت ہے اور نجومی اس سے خالی نہیں۔ (5/ 398)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على جواز الرقي عند اجتماع ثلاثة شروط:
۱۔ أن تكون بكلام الله تعالى و أسمائه و صفاته.
۲۔ و باللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره.
۳۔ و أن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بتقدير الله تعالى. ( فتح الباری: 10/ 195)
© Copyright 2024, All Rights Reserved