• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ہاتھوں کو دھوتے وقت کلمہ پڑھنا

استفتاء

(1)میرا  آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ جنابت سے پہلے وضو کرتے ہیں تو ہاتھوں کو پاک کرنے کے لیے کلمہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

(2)ہمارے کمرے میں اٹیچ باتھ روم ہے کہتے ہیں  کہ اس میں وضو اور غسل سے پہلے ہاتھوں کو پاک کرنے کے لیے کلمہ نہیں پڑھنا چاہیئے کلمہ پڑھے بغیر ہی غسل اور وضو ہو جاتا ہے؟

(3)بچوں کو واش روم سے فارغ کرنے کے بعد ہاتھوں پر کلمہ پڑھے بغیر پانی سے ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ پاک ہو جاتے ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں بھی ہاتھوں کو پاک کرنے کے لیے کلمہ پڑھنا جائز ہے کیونکہ  ہر عضو دھوتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا مستحب ہے۔لیکن اگر  وضو باتھ روم میں کر رہے ہوں  تو اس وقت کچھ بھی نہیں پڑھنا چاہیئے۔

(2)   اٹیچ باتھ روم میں وضو کرتے وقت کلمہ  پڑھنا مکروہ ہے۔لیکن  کلمہ پڑھے بغیر وضو اور غسل ہو جاتا ہے۔

(3)  پاک ہو جاتے ہیں۔

نوٹ: وضو کی دعائیں اٹیچ باتھ روم میں داخل ہونے سے پہلے بھی پڑھ سکتے ہیں۔

حاشیۃ ابن عابدین (273/1) میں ہے:

قوله ( والتسمية كما مر )… فصار مجموع ما يذكر عند كل عضو التسمية والشهادة والدعاء والصلاة على النبي لكن قال صاحب الهداية في مختارات النوازل ويسمي عند غسل كل عضو أو يدعو بالدعاء المأثور فيه أو يذكر كلمة الشهادة أو يصلي على النبي فأتى في الجميع بأو ولكن رأيت في الحلية عن المختارات ويدعو بالواو وبأو في البواقي فليراجع

وقال العلامة الرافعي (قوله: ولكن رأيت في الحلية عن المختارات ويدعو بالواو وبأو في البواقي فليراجع ) راجعت النوازل فرأيته عبر بأو في جميع المعاطيف۔

امداد الفتاویٰ (195/6) میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارہ میں کہ یہاں رنگون وغیرہ کے بہتیرے مکانات میں غسل خانے وپاخانے دونوں متصل واقع ہیں دونوں کے درمیان میں کوئی دیوار وغیرہ کی آڑ یا پردہ نہیں ہے پاخانے صاف رہتے ہیں جب کوئی جاتا ہے تو فراغت کے بعد زنجیر کھیچ دیتا ہے جس سے بذریعہ نل صفائی ہو جایا کرتی ہے اور غسل خانہ میں بسا اوقات پٹڑی وغیرہ بچھا کر وضو کیا جاتا ہے اور وضو کی حالت میں کچھ اذکار بھی پڑھے جاتے ہیں۔ پس ارشاد ہو کہ آیا ایسے غسل خانے میں اذکار کا پڑھنا حرام یا مکروہ ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

جواب: في رد المحتار عن الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسات كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهراً لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولا يرفع صوته فلا بأس به، ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اه. وفيها عن القنية لا بأس بالقراءة راكباً أو ماشياً إذا لم يكن ذلك الموضع معدا للنجاسة وإن كان يكره اه. وفيها: لا بأس بالصلاة حذاء البالوعة إذا لم يكن بقريبه اه. فتحصل من هذا أن الموضع إن كان معداً للنجاسة كرهت القراءة مطلقاً وإلا فإن لم يكن هناك نجاسة ولا أحد مكشوف العورة فلا كراهة مطلقاً وإن كان فإنه يكره رفع الصوت وإن كانت النجاسة قريبة فتأمل رباب الجنائز. (ج: أول)

ان روايات سے ثابت ہوا کہ جو موضع نجاست کے لیے موضوع ہو اور اس کی مثال میں غسل خانہ کو بھی کہا ہے وہاں صلوٰۃ وقراءت ممنوع ہے اور جو موضع نجاست کے لیے موضوع نہ ہو ان میں تفصیل کی ہے اور ایسے ہی موضع میں تسبیح و تہلیل کو جائز کہا ہے۔ اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ موضع موضوع للنجاست میں تسبیح و تہلیل بھی جائز نہیں۔ پس اس سے مفہوم ہوا کہ محل مندرج فی السوال میں کہ غسل خانہ ہے خصوص جبکہ اس کا ایک حصہ پائخانہ بھی ہے کہ مجموعہ مکان واحد سمجھا جاتا ہے۔ اذکار وضوء بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

آپ کے مسائل اور ان کا حل (160/3) میں ہے:

سوال :آجکل تقریبا ہر گھر میں باتھ روم ہوتے ہیں ،جس میں استنجاء کی جگہ حمام اور واش بیسن ایک ساتھ ہوتا ہے ان جگہوں پر اجابت کے بعد طہارت کی غرض سے ہاتھ دھونے کے لئے وہیں رہ کر دعا پڑھیں یا پہلے باہر نکل کر دعا پڑھ کر پھر دوبارہ دعا پڑھ کر اندر داخل ہو کر طہا رت کی دعا پڑھیں؟

جواب: یہ تو ظاہر ہے کہ غلاظت کی جگہ دعاؤں کا پڑھنا جائز نہیں لہذا غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھی جائے اور غسل خانے سے نکل کر دعائیں پڑھی جائیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved