- فتوی نمبر: 21-323
- تاریخ: 11 مئی 2024
- عنوانات: عبادات
استفتاء
نماز کے لئے وضو کی فضیلت قابل فہم ہےلیکن میرا سوال ہے کہ ہمبستری،احتلام یاعورت کے خاص دنوں کے بعد غسل مسنون کے واجب ہونے کے حکم کو برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں کہ ایسا کیوں ضروری ہے؟ اور کیوں ہم غلاظت کو صاف کرنے کے بعد وضو کر کے اپنے دینی فرائض انجام نہیں دے سکتے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
وضو میں تو آپ کے لئے بھی یہ بات قابلِ فہم ہےکہ اپنے دینی فرائض انجام دینے کے لئےمحض غلاظت ( نجاست) کو دھو لینا کافی نہیں،بلکہ وضو کرنا ضروری ہے البتہ آپ کویہ اشکال ہے کہ غسل کی مذکورہ صورتوں میں وضو کرلینا ہی کافی کیوں نہیں؟غسل کرنا کیوں ضروری ہے؟اس اشکال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے پابند ہیں ،خواہ ہمیں اس کی کوئی وجہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے ،تاہم قرآن و حدیث کی روشنی ہی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہےکہ آدمی کا وضو ٹوٹے یا اس پر غسل واجب ہو ان دونوں صورتوں میں شریعت کی نظر میں آدمی کا پورا جسم ناپاک ہو جاتا ہے(چاہے وہ بعض احکام کے لحاظ سے ہو مثلا بے وضو ہونے کی صورت میں قرآن چھونےکےلحاظ سےآدمی کاسارا جسم ناپاک ہوجاتاہے)پورے جسم کے ناپاک ہونے کا تقاضہ یہ تھا کہ وضو میں بھی پورے جسم کو دھوتااورغسل میں بھی پورے جسم کو دھویا جاتا لیکن وضو کی ضرورت دن میں متعدد بار پیش آتی رہتی ہے جس کی وجہ سے بار بار پورے جسم کو دھونے یعنی غسل کرنے میں اچھا خاصا حرج ہے ،لہذا وضو کی ضرورت پیش آنے کی صورت میں ہماری آسانی کے لئے صرف وضو کر لینا ضروری قرار دیا گیا جبکہ غسل واجب ہونے کی صورتیں چونکہ کبھی کبھار پیش آتی ہیں جس کی وجہ سے پورے جسم کو دھونے یعنی غسل کرنے میں ایسی مشقت نہیں جو عام طور سے قابل تحمل نہ ہو ،لہذا غسل کی صورتوں میں صرف وضو کرلینے کو کافی قرار نہیں دیا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved