• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

ہبہ بلا قبضہ

استفتاء

ایک شخص نے دو کنال جگہ خرید کر اس میں پانچ کمرے بنوائے اور ایک کمرہ اضافی بنوایا، پھر اس جگہ کو پانچوں بیٹوں میں تقسیم کر دیا، ہر بیٹے کے حصے میں ایک کمرہ بنا ہوا آگیا اور سب سے چھوٹے والے کے حصے میں اضافی کمرہ بھی آ گیا۔ اس اضافی کمرے کے بارے میں یہ طے ہوا کہ اس میں والدین رہیں گے اور ان دونوں کے فوت ہونے کے بعد یہ کمرہ اسی بیٹے کی ملکیت ہو جائے گا (یعنی چھوٹے بیٹے کی ملکیت ہو جائے گا، جس کے حصے میں یہ کمرہ بنا ہوا ہے) والدین نے اس کمرے میں رہائش رکھی، پھر شدید موسمی حالات کی وجہ سے چھوڑ دی اور تیسرے نمبر والے بیٹے کے ساتھ رہنے لگے۔ پھر یہ کمرہ کرایہ پر دے دیا، کرایہ والدین خود وصول کرتے رہے، بعد میں جب کرایہ دار چلے گئے تو پھر والد صاحب نے اس میں آٹا پیسنے والی چکی رکھ لی، جو ان کی وفات تک رکھی رہی۔

وفات سے 8 ماہ پہلے والد صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ بیٹا اپنا حصہ فروخت کرنا چاہ رہا ہے تو انہوں نے اس کمرے کی تعمیر کا ایک لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر دیا کہ "تمہیں یہ کمرہ اضافی طور پر بنوا کر دیا ہوا ہے، لہذا اس کا ایک لاکھ روپیہ ادا کرو”۔بیٹے نے پریشان ہو کر ماں سے کہا کہ "اب والد صاحب اس کی تعمیر کا پیسہ مانگ رہے ہیں جبکہ پہلے ایسا معاملہ نہیں تھا”۔ پھر کوئی بات نہیں ہوئی اور 8 ماہ بعد والد صاحب فوت ہو گئے۔

اب سوال یہ  ہے کہ یہ بیٹھک کس کی ملکیت ہے؟ اور کیا بیٹے کے ذمے والد کو رقم دینا واجب تھی؟ اگر واجب تھی اور اب وہ رقم ترکے میں شامل ہو گی تو کیا بیٹے کو اتنی مہلت دی جا سکتی ہے؟ کہ وہ جب اپنا حصہ فروخت کرے اس وقت اس سے یہ رقم وصول کر کے وارثوں میں تقسیم کی جائے۔

وضاحت: 1۔ والد نے ایسی کوئی بات نہیں کہ کہ اب یہ کمرہ تمہارا ہے، اور نہ ہی والد نے وہاں سے اپنی چکی ہٹائی۔

2۔ اس بیٹے نے اپنی بڑی بہن کے سامنے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ والد صاحب رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں تو میں بھی رقم تب ہی ادا کر سکتا ہوں جب یہ مکان بکے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جب والد نے اپنی زندگی میں اضافی کمرہ بیٹے کو نہیں دیا تو والدین کی وفات کے بعد بیٹے کی ملکیت ہو جانا یہ والد  کی اس بیٹے کے لیے وصیت ہے جو اگر دیگر ورثائ راضی ہوں تو نافذ ہو گی ورنہ وہ کمرہ ترکہ شمار ہو کر وراثت میں تقسیم ہو گا۔

تمام ورثاء آپ میں ادائیگی کے لیے کوئی متفقہ طریقہ طے کر سکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved