- فتوی نمبر: 13-398
- تاریخ: 10 فروری 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں والدہ نوین اسلم ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں مسئلہ یہ ہے کہ میری ساس جو کہ میری پھوپھی بھی تھیں ان کو کلیم میں ایک بلڈنگ ملی جو ان کو اپنے میکے سے وراثت میں ملی تھی انہوں نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ تم کلیم کے پیسے جمع کروادو۔ کلیم کے پیسوں میں پانچ ہزار کم تھے سارے بیٹے نے نہیں دیئے تھے۔ یہ بلڈنگ تمہاری ہے ۔انہوں نے اس وقت کلیم کے عنوان سے پانچ ہزار روپے جمع کروائے ۔1991میں گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ کلیم والی جائیدادوں کی رجسٹری کروالیں مگر انہوں نے رجسٹری نہیں کروائی ۔ چنانچہ جو کلیم ہماری ساس کے نام کا جمع ہوا تھا انہی کے نام پر آج بھی بس وہی کلیم کا ایک پیپر ہے میری جیٹھانی یعنی جیٹھ کی بیوی کہتی تھی یہ میرے میاں کی ملکیت ہے اور کسی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے اس وقت بڑے جیٹھ سب سے بڑے تھے ہماری ساس نے ان کو دکان بھی خرید کردی ۔یعنی ہمارے سسر جو کماتے تھے ہماری ساس جو پیسے جمع کرتی تھیں انہوں نے اپنے بیٹے کو دوکان خرید کرنے کے لیے خود پیسے دیئے یہ دوکان ہمارے جیٹھ کے نام تھی اور آج بھی ان کی اولاد کے پاس ہے جبکہ ہماری ساس کے سات بچے موجود تھے یعنی تین بیٹے اور چار بیٹیاں ۔ساس کے انتقال کے بعد بلڈنگ میں چھوٹے بھائیوں کی رہائش تھی جیٹھ نے خود اپنے لیے الگ مکان لے لیا تھا ۔لہذا یہاں سے چلے گئے تھے اور پراپرٹی ٹیکس دونوں چھوٹے بھائی جمع کرواتے تھے جن کی رہائش تھی لیکن جیٹھانی ہمیشہ یہی کہتی تھیں یہ بلڈنگ میرے بچوں کی ہے اور اس میں ہم کسی کو حصہ نہیں دیں گے وہ کہتی تھیں میرے میاں نے دونوں بھائیوں کو کام کے لیے پیسے دیئے تھے کاروبار کروایا تھا اس لیے ان کا کوئی اس پراپرٹی میں حصہ نہیں ہے جبکہ ہمیشہ مرمت چھوٹے بھائی یعنی میرے میاں نے کروائی ہمیشہ پیسہ لگایا اور آج صرف ہماری رہائش ہے دوسرے بھائی بھی اپنا گھر بنا کر چلے گئے انہوں نے اس بلڈنگ میں بھی کبھی کوئی پیسہ نہیں لگایا ۔آ ج بھی ہم ہی صحیح کرواتے ہیں ۔پیسہ لگاتے ہیں اور پراپرٹی ٹیکس بھی اب ہمارے نام سے آتا ہے کیونکہ جیٹھ کے انتقال کے بعد دوسرے جیٹھ نے پراپرٹی ٹیکس کے پیپر میں نام چینج کروائے تو ان کے دونوں بیٹوں یعنی بڑے جیٹھ کے اور اپنا اور میرے میاں کانام لکھوادیا جب سے پراپرٹی ٹیکس ہم ہی جمع کرواتے ہیں مگر چار لوگوں کے نام سے آتا ہے ۔اب ہماری جیٹھانی کا بھی انتقال ہو چکا ہے بڑے جیٹھ کے بچے کہتے ہیں یہ ہمارے والد کی بلڈنگ ہے کسی کو کچھ نہیں دیں گے جبکہ رجسٹری اس کی آ ج بھی نہیں ہوئی اور گورنمنٹ میں جو پیپر ہے اس میں آج بھی یہ ہماری ساس کے نام کا کلیم کا پیپر موجود ہے آپ مجھے شرعی حکم بتا دیں کہ یہ بلڈنگ اکیلے بڑے جیٹھ کی ہی ملکیت ہے یا وراثت ہے ؟اس بلڈنگ میں صرف میری فیملی کی رہائش ہے باقی سب نے اپنے اپنے گھر بنالیے جبکہ ہم نے اس کو ہمیشہ اپنا سمجھا اور اسی پر پیسہ لگایا ہے۔اب جیٹھ کے بچے کہتے ہیں خالی کردو آپ کا کچھ بھی نہیں ہے اوپر کا پورا پورشن میرے میاں نے خود بنایا اپنی فیملی کے لیے اور اسی پورشن میں ہماری رہائش ہے اور دو فلور نیچے ہیں ایک کا کرایہ بڑے جیٹھ کے بچے لیتے ہیں اور دوسرے کا چھوٹے جیٹھ کے پاس جاتا ہے جبکہ تیسرے پر ہماری رہائش ہے اور گراونڈ کی یہ دکانیں ہمارے پاس نہیں ہیں ۔یعنی کلیم میں نہیں ہیں ۔
اب میری ساس کے تمام بچوں کا انتقال ہو گیاہے یعنی چاروں بیٹوں کا بھی اور بڑے بیٹے کابھی ،صرف میرے میاں اور چھوٹے جیٹھ حیات ہیں جبکہ باقی سب جن کا انتقال ہو گیا ہے ان کی اولادیں موجود ہیں آپ ہم کو مشورہ دیں کہ اس میں ہمارا حصہ ہے یا نہیں ؟ اور ہے تو کس طرح ہے ؟کیونکہ بڑے جیٹھ کے بچے کہتے ہیں ہم اس کو مٹی کا ڈھیر بننے دیں گے مگر فروخت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہماری ہے اور ہم نہ بیچیں گے اور نہ بیچنے دیں گے ۔آپ لوگ بھی چھوڑ دو کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فروخت ہو جائے اور ہم بھی اپنا مکان بنالیں بڑے جیٹھ کے سب بچوں کی شادیاں ہوئی ہیں سب صاحب حیثیت ہیں اور کاغذات بھی کسی کے پاس نہیں ہیں صرف وہی ایک کلیم کا پیپر ہے جو کہ ہمارے پاس ہے ۔آپ یہ بتادیں کہ ہم غلط تو نہیں کررہے اس کو بیچنے کی کوشش کرکے وراثت تقسیم کرنے کا کام ۔آپ بتادیں کیونکہ ہماری رہائش اسی جگہ ہے اور یہی ایک ٹھکانہ ہے ہمارے پاس رہنے کا آپ شریعت اور قرآن کی روشنی میں بتلادیں کہ ہم غلط تو نہیں کررہے۔ کیا یہ ان کی ہی ملکیت ہے یا وراثت ہے یا نہیں ؟اور اگر وراثت ہے تو کس طرح حصہ تقسیم ہو گا؟یا صرف تینوں بھائیوں کی ہے ہم کو قرآن اور شریعت کی رو سے جواب تحریر کردیں کیونکہ ہم کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔ اور نہ کسی کی حق تلفی کرنا چاہتے ہیں ۔فتوی آسان الفاظ میں تحریر کیجئے گا تاکہ سب کو پڑھا سکوں ۔
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔ کلیم میں بلڈنگ ملنے کا کیا مطلب ہے؟
۲۔ وراثت میں کلیم ملاتھا یا بلڈنگ ملی تھی؟
۳۔ والدہ یعنی سائلہ کی ساس کی ملکیت اس بلڈنگ میں کب اور کیسے آئی؟
جواب وضاحت:
۱۔۲ ہماری ساس کے والدانڈیا سے آئے تھے ان کے پاس وہاں کی جائیداد کے کچھ ثبوت اور کاغذات تھے انہوں نے وہ کاغذات ہماری ساس کو دیئے جن کے بدلے میں ہمیں یہ بلڈنگ ملی ۔اوپر والا حصہ ملانیچے والا نہیں ملا۔
۳۔ ہمارے جیٹھ کے پاس جگہ تھی اور انہوں نے نام نہیں کروائی ۔جیٹھ وفات پاگئے اور ان کی وفات کے بعد وہ جگہ ساس کے پاس رہی ان کے پاس کاغذات ہیں ۔
نوٹ :فریق مخالف بھی اسی سٹیٹ منٹ کے مطابق جواب کا منتظر ہے (سلمان)
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔ آپ کی ساس نے جب وہ بلڈنگ بڑے بیٹے کے نام کی تھی تو اس بیٹے نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تھا یا پہلے سے آپ کی ساس وغیرہ اسی بلڈنگ میں رہتے تھے اس وقت کیا معاملہ ہوا تھا ؟اس کو واضح کرکے بیان کریں ۔
۲۔ آپ نے بیان کیا ہے کہ آپ کی ساس کے والد انڈیا سے آئے تھے اور اپنوں نے کاغذات آپ کی ساس کو دیئے تھے تو کیا ان کے والد کے اور کوئی ورثاء نہ تھے ؟یہ ساری بلڈنگ آپ کی ساس کو ہی کیوں ملی تھی ؟
جواب وضاحت:
۱۔ جس وقت یہ یلڈنگ ساس کے نام ہوئی تھی اس وقت سارے اسی میں ہی رہتے تھے علیحدہ سے قبضہ نہیں دیا تھا۔
۲۔ ورثاء اور بھی تھے ساس کے حصے میں یہ بلڈنگ آئی تھی باقیوں کو علیحدہ حصہ ملاتھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کی ساس کی جانب سے اپنے بڑے بیٹے کو یہ بلڈنگ دینے کی حیثیت ہدیہ اور ہبہ کی ہے ۔ہدیہ کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس کو ہدیہ کیا جائے وہ اس پر عملا قبضہ بھی کرلے ،یا سرکاری کاغذات میں اس کے نام چڑھ جائے مذکورہ صورت میں اس بیٹے نے نہ تو اس پر علیحدہ سے قبضہ کیا اور نہ سرکاری کاغذات میں یہ اس کے نام چڑھی ۔ لہذا یہ مکان آپ کی ساس کا ہی رہا جو ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہو گا۔البتہ جو پورشن آپ کے شوہر نے اپنے پیسوں سے بنوایا ہے وہ ان کا ہی ہے جس کی قیمت ان کو ملے گی ۔
قیمت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس پورشن کے بغیر اس مکان کی جو قیمت ہو اور پورشن کے ساتھ جو قیمت ہو ان دونوں کے درمیان جو فرق آئے وہ اس کی قیمت شمار کی جائے
© Copyright 2024, All Rights Reserved